ہم نے آداب غم کا پاس کیا
ہم نے آداب غم کا پاس کیا
نقد جاں کو زیاں قیاس کیا
زیست کے تجربات کا ہم نے
مثل آئینہ انعکاس کیا
خبر آگہی کے پردے میں
عمر بھر ماتم حواس کیا
تہمت شعلۂ زباں لے کر
صورت زخم التماس کیا
کیسے اک لفظ میں بیاں کر دوں
دل کو کس بات نے اداس کیا
آ گیا جب سلیقۂ تعمیر
قصر ہستی کو بے اساس کیا
کیوں سحرؔ تم نے اپنے صحرا کو
موج دریا سے روشناس کیا