نہ کسی سے کرم کی امید رکھیں نہ کسی کے ستم کا خیال کریں
نہ کسی سے کرم کی امید رکھیں نہ کسی کے ستم کا خیال کریں
ہمیں کون سے رنج ملے ہیں نئے کہ جو دل کے زیاں کا ملال کریں
ابھی صرف خیال ہے خواب نما ابھی صرف نظر ہے سراب نما
ذرا اور خراب ہو وضع جنوں تو وہ زحمت پرسش حال کریں
وہی شہر ہے شہر کے لوگ وہی غم خندہ و سنگ و صلیب وہی
یہاں آئے ہیں کون سے ایسے سخی کہ جو لطف سخن کا سوال کریں
سنے کون یہ طعنۂ چارہ گری سہے کون یہ داغ کمال رفو
چلو درد وجود جگائیں سحر چلو زخم حیات بحال کریں