الاؤ
ہم اجنبی تھے مسافر تھے خانہ ویراں تھے اور اس الاؤ کے رقصاں حنائی باتوں نے بلا لیا ہمیں اپنے حسیں اشاروں سے تو اس کی روشنیٔ احمریں کی تابش میں خود اپنے آپ کو اک دوسرے سے پہچانا کہ ہم وہ خانہ بدوشان زیست ہیں جن کو ازل سے اپنے ہی جیسے مسافروں کی تلاش کئے ہوئے ہے انہی دشت و در میں سر ...