سحر انصاری کی نظم

    الاؤ

    ہم اجنبی تھے مسافر تھے خانہ ویراں تھے اور اس الاؤ کے رقصاں حنائی باتوں نے بلا لیا ہمیں اپنے حسیں اشاروں سے تو اس کی روشنیٔ احمریں کی تابش میں خود اپنے آپ کو اک دوسرے سے پہچانا کہ ہم وہ خانہ بدوشان زیست ہیں جن کو ازل سے اپنے ہی جیسے مسافروں کی تلاش کئے ہوئے ہے انہی دشت و در میں سر ...

    مزید پڑھیے

    قابیل کا سایہ

    خدا کے خوف سے اپنے گناہوں پر خجل ہو کر وہ پیہم گریہ کرتا تھا وہ اپنے بھائی کے لاشے پہ پیہم گریہ کرتا تھا لہو آواز دیتا تھا زمیں کی خاک رسوا سے خدا کا عرش کانپ اٹھتا تھا اس فریاد کو سن کر برادر کش سزا پاتے تھے پتھر بن کے جیتے تھے اور ان کے دل کی دھڑکن بند ہو جاتی تھی سینوں میں اور ان ...

    مزید پڑھیے

    حساب شب

    میں اپنے آپ گم صم اداس واماندہ یہ سوچتا ہوں کہ کیا حق ہے مجھ کو جینے کا نہ ماہتاب مرا ہے نہ آفتاب مرا نہ دن کے رنگ مرے ہیں نہ لطف خواب مرا کوئی قریب سے دیکھے تو میرے دامن میں شکایتیں بھی بہت ہیں محبتیں بھی بہت روایتیں بھی بہت ہیں بغاوتیں بھی بہت پھر اک سوال ہے بیدار شب کے آنگن ...

    مزید پڑھیے

    کبھی کبھی

    کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوا کرتا ہے جیسے لفظ کے سارے رشتے بے معنی ہیں لگتی ہے کانوں کو اکثر خاموشی آواز کے سناٹے سے بہتر سادہ کاغذ لکھے ہوئے کاغذ سے اچھا لگتا ہے خوابیدہ لفظوں کو آخر جاگتی آنکھوں کی تصویر دکھائیں کیسے پلکوں پر آواز سجائیں کیسے کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے تم میری ...

    مزید پڑھیے

    دوراہا

    (خود کلامی) تم جھوٹ اور سچ کے دوراہے پر تھے گزرتے لمحوں کی آواز نے تم سے پوچھا کیا تم سچ کی راہ پر چل سکتے ہو تم چپ ہی رہے گزرتے لمحوں کی آواز نے تم سے پوچھا کیا تم جھوٹ کی راہ پہ چل سکتے ہو تم چپ ہی رہے اور ''ہاں'' کے سارے لمحے گزر گئے تم جانتے ہو ''ہاں'' کہنے کے تو سارے لمحے گزر گئے اب ...

    مزید پڑھیے

    ریزۂ وجود

    مرے وجود کا مکان خار دار تار کا حصار جس کے ارد گرد آدمی کا خون پینے والی زرد جھاڑیوں کے خار دار ہات ہیں مری زمیں کے ارد گرد کہکشاں کے خار دار دائروں کا رقص ہے زمیں سے آسمان تک وجود اپنے ان گنت حواس کا گناہ ہے شعور و لمس و لذت و مقام کے سراب ہیں میں پوچھتا ہوں سنگ میں گداز پنبہ ...

    مزید پڑھیے

    نوح کے بعد

    نقطۂ صفر پر وقت کا پاؤں تھا زد میں سیلاب کی جب ہر اک گاؤں تھا نوح نے اپنی کشتی کو تخلیق کی جملہ انواع سے بھر لیا ربع مسکوں کے سیلاب پر اپنی کشتی لیے کوہ جودی کی چوٹی کو سر کر لیا نوح کے واسطے جس پرندے کی منقار میں برگ زیتون تھا وہ امید مسلسل کا قانون تھا ہم جو کشتی سے اور برگ ...

    مزید پڑھیے

    زرد سورج

    مہیب روحوں کے قہقہوں سے مآثر جاں لرز اٹھے ہیں لہو کی رفتار زہر قاتل کی دھار بن کر دل کی گہرائیوں میں پیہم اتر رہی ہے ہڈیاں آگہی کی بیدار آگ میں پھر پگھل رہی ہیں حیات سے بے خبر فضاؤں میں جسم تحلیل ہو رہا ہے شب سیہ کے ڈراؤنے فاصلوں سے لٹکی ہوئی شپرہ چشم آرزوئیں یہ چاہتی ہیں کہ ...

    مزید پڑھیے

    تاریکیوں کا حساب

    نیم خوابیدہ بوجھل سبک سر ہوا شب کی آغوش میں دفعتاً جاگ اٹھی کسمساتی ہوئی سر اٹھا کے چلی شب کی آغوش سے سرد بوجھل ہوا لڑکھڑا کے چلی بے خطر بے حذر چور نشے میں یک چشم عفریت شب آنکھ کی سرخ گولائی روشن کئے ہے ہوا کے تعاقب میں ہر موڑ پر کون روکے اسے کون ٹوکے اسے ہیں تضادوں کے آسیب اس ...

    مزید پڑھیے

    انتظار

    رات بھر بارش دریچے کے قریب موتیے کی بیل سے لپٹی ہوئی قطرہ قطرہ زہر برساتی رہی میری آنکھوں کو ترے چہرے کی یاد آتی رہی صبح کو تھا فرش پر پتوں کا ڈھیر بے نمو مٹی کے چہرے کے نقاب انتقام انتظار آفتاب

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2