سحر انصاری کی غزل

    تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ

    تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ کیا تماشا ہے کہ مرتے بھی نہیں زہر سے لوگ شہر میں آئے تھے صحرا کی فضا سے تھک کر اب کہاں جائیں گے آسیب زدہ شہر سے لوگ نخل ہستی نظر آئے گا کبھی نخل صلیب زیست کی فال نکالیں گے کبھی زہر سے لوگ ہم کو جنت کی فضا سے بھی زیادہ ہے عزیز یہی بے رنگ سی دنیا ...

    مزید پڑھیے

    راستوں میں اک نگر آباد ہے

    راستوں میں اک نگر آباد ہے اس تصور ہی سے گھر آباد ہے کیسی کیسی صورتیں گم ہو گئیں دل کسی صورت مگر آباد ہے کیسی کیسی محفلیں سونی ہوئیں پھر بھی دنیا کس قدر آباد ہے زندگی پاگل ہوا کے ساتھ ساتھ مثل خاک رہ گزر آباد ہے دشت و صحرا ہو چکے قدموں کی گرد شہر اب تک دوش پر آباد ہے بے خودی ...

    مزید پڑھیے

    صدا اپنی روش اہل زمانہ یاد رکھتے ہیں

    صدا اپنی روش اہل زمانہ یاد رکھتے ہیں حقیقت بھول جاتے ہیں فسانہ یاد رکھتے ہیں ہجوم اپنی جگہ تاریک جنگل کے درختوں کا پرندے پھر بھی شاخ آشیانہ یاد رکھتے ہیں ہمیں اندازہ رہتا ہے ہمیشہ دوست دشمن کا نشانی یاد رکھتے ہیں نشانہ یاد رکھتے ہیں ہم انسانوں سے تو یہ سنگ و خشت بام و در ...

    مزید پڑھیے

    ہوس و وفا کی سیاستوں میں بھی کامیاب نہیں رہا

    ہوس و وفا کی سیاستوں میں بھی کامیاب نہیں رہا کوئی چہرہ ایسا بھی چاہیئے جو پس نقاب نہیں رہا تری آرزو سے بھی کیوں نہیں غم زندگی میں کوئی کمی یہ سوال وہ ہے کہ جس کا اب کوئی اک جواب نہیں رہا تھیں سماعتیں سر ہاؤ ہو چھڑی قصہ خانوں کی گفتگو وہی جس نے بزم سجائی تھی وہی باریاب نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سزا بغیر عدالت سے میں نہیں آیا

    سزا بغیر عدالت سے میں نہیں آیا کہ باز جرم صداقت سے میں نہیں آیا فصیل شہر میں پیدا کیا ہے در میں نے کسی بھی باب رعایت سے میں نہیں آیا اڑا کے لائی ہے شاید خیال کی خوشبو تمہاری سمت ضرورت سے میں نہیں آیا ترے قریب بھی یاد آ رہے ہیں کار جہاں بہت قلق ہے کہ فرصت سے میں نہیں آیا گزر گئے ...

    مزید پڑھیے

    ہم اہل ظرف کہ غم خانۂ ہنر میں رہے

    ہم اہل ظرف کہ غم خانۂ ہنر میں رہے سفال نم کی طرح دست کوزہ گر میں رہے فرار مل نہ سکا حبس جسم و جاں سے کہ ہم طلسم خانۂ تکرار خیر و شر میں رہے کسی کو قرب مسلسل کا حوصلہ نہ ہوا مثال دود پریشاں ہم اپنے گھر میں رہے نہ سنگ میل تھا کوئی نہ کوئی نقش قدم تمام عمر ہوا کی طرح سفر میں رہے نہ ...

    مزید پڑھیے

    ملی بھی کیا در دولت سے کار عشق کی داد

    ملی بھی کیا در دولت سے کار عشق کی داد یہی کہ تیشۂ فرہاد بر سر فرہاد رخ نمو کو شکایت فقط خزاں سے نہیں بہار میں بھی ہوئی کشت جسم و جاں برباد دوام مانگ رہا ہوں گزرتے لمحوں سے ہے زندگی سے محبت ہی زندگی کا تضاد زمانے بھر کے غموں سے الگ تھلگ رہ کر سکوں بہت ہے مگر ہے دل سکوں برباد شعور ...

    مزید پڑھیے

    عجب طرح سے میں صرف ملال ہونے لگا

    عجب طرح سے میں صرف ملال ہونے لگا جو شہر کا ہے وہی دل کا حال ہونے لگا سب اس کی بزم میں تھے مجرموں کی طرح خموش ہم آ گئے تو ہمیں سے سوال ہونے لگا اب آسماں سے مجھے شکوۂ جفا بھی نہیں ہر انقلاب مرے حسب حال ہونے لگا ہمارے کیف و مسرت میں اہتمام کہاں ہوائے تازہ چلی جی بحال ہونے لگا جو ...

    مزید پڑھیے

    نہ دوستی سے رہے اور نہ دشمنی سے رہے

    نہ دوستی سے رہے اور نہ دشمنی سے رہے ہمیں تمام گلے اپنی آگہی سے رہے وہ پاس آئے تو موضوع گفتگو نہ ملے وہ لوٹ جائے تو ہر گفتگو اسی سے رہے ہم اپنی راہ چلے لوگ اپنی راہ چلے یہی سبب ہے کہ ہم سرگراں سبھی سے رہے وہ گردشیں ہیں کہ چھٹ جائیں خود ہی بات سے ہات یہ زندگی ہو تو کیا ربط جاں کسی ...

    مزید پڑھیے

    مرحلے زیست کے دشوار ابھی ہو جائیں

    مرحلے زیست کے دشوار ابھی ہو جائیں تاکہ ہم جینے کو تیار ابھی ہو جائیں یہ جو کچھ لوگ مرے چار طرف ہیں ہر وقت یار ہو جائیں کہ اغیار ابھی ہو جائیں جس کی تعبیر ہے اک خواب میں چلتے رہنا کیوں نہ اس خواب سے بیدار ابھی ہو جائیں جانے پھر کوئی ضرورت بھی رہے یا نہ رہے جن کو ہونا ہے وہ غم خوار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3