سحر انصاری کی غزل

    اب یہی رنج بے دلی مجھ کو مٹائے یا بنائے

    اب یہی رنج بے دلی مجھ کو مٹائے یا بنائے لاکھ وہ مہرباں سہی اس کی طرف بھی کون جائے روٹھے ہوئے وجود بھی درد انا سے کم نہیں کیوں میں کسی کے ناز اٹھاؤں مجھ کو بھی کوئی کیوں منائے سایۂ قرب میں ملیں آ وہی دونوں وقت پھر ہونٹ پہ صبح جگمگائے آنکھ میں شام مسکرائے دن کو دیار دید میں وسعت ...

    مزید پڑھیے

    پیمانۂ حال ہو گئے ہم

    پیمانۂ حال ہو گئے ہم گردش میں مثال ہو گئے ہم تکمیل کمال ہوتے ہوتے تمہید زوال ہو گئے ہم امکان وجود کے سفر پر نکلے تو محال ہو گئے ہم آئینۂ کرب لفظ و معنی فرہنگ ملال ہو گئے ہم پہلے تو رہے حقیقت افروز پھر خواب و خیال ہو گئے ہم

    مزید پڑھیے

    کیا کسی لمحۂ رفتہ نے ستایا ہے تجھے

    کیا کسی لمحۂ رفتہ نے ستایا ہے تجھے ان دنوں میں نے پریشان سا پایا ہے تجھے بحر شادابیٔ جذبات کی اے موج رواں کون اس دشت بلا خیز میں لایا ہے تجھے تیری تنویر سلامت مگر اے مہر مبیں گھر کی دیوار پہ یوں کس نے سجایا ہے تجھے شکوۂ تلخئ حالات بجا ہے لیکن اس پہ روتا ہوں کہ میں نے بھی رلایا ...

    مزید پڑھیے

    کسی بھی زخم کا دل پر اثر نہ تھا کوئی

    کسی بھی زخم کا دل پر اثر نہ تھا کوئی یہ بات جب کی ہے جب چارہ گر نہ تھا کوئی کسی سے رنگ افق ہی کی بات کر لیتے اب اس قدر بھی یہاں معتبر نہ تھا کوئی بنائے جاؤں کسی اور کے بھی نقش قدم یہ کیوں کہوں کہ مرا ہم سفر نہ تھا کوئی گزر گئے ترے کوچے سے اجنبی کی طرح کہ ہم سے سلسلۂ بام و در نہ تھا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے خوں سے جو ہم اک شمع جلائے ہوئے ہیں

    اپنے خوں سے جو ہم اک شمع جلائے ہوئے ہیں شب پرستوں پہ قیامت بھی تو ڈھائے ہوئے ہیں جانے کیوں رنگ بغاوت نہیں چھپنے پاتا ہم تو خاموش بھی ہیں سر بھی جھکائے ہوئے ہیں محفل آرائی ہماری نہیں افراط کا نام کوئی ہو یا کہ نہ ہو آپ تو آئے ہوئے ہیں

    مزید پڑھیے

    وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں

    وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں وہ فاصلے بھی گئے اب وہ قربتیں بھی گئیں دلوں کا حال تو یہ ہے کہ ربط ہے نہ گریز محبتیں تو گئیں تھی عداوتیں بھی گئیں لبھا لیا ہے بہت دل کو رسم دنیا نے ستم گروں سے ستم کی شکایتیں بھی گئیں غرور کج کلہی جن کے دم سے قائم تھا وہ جرأتیں بھی گئیں وہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3