محسوس کیوں نہ ہو مجھے بیگانگی بہت

محسوس کیوں نہ ہو مجھے بیگانگی بہت
میں بھی تو اس دیار میں ہوں اجنبی بہت


آساں نہیں ہے کشمکش ذات کا سفر
ہے آگہی کے بعد غم آگہی بہت


ہر شخص پرخلوص ہے ہر شخص با وفا
آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی بہت


اس جان جاں سے قطع تعلق کے باوجود
اس رہ گزر میں آج بھی ہے دل کشی بہت


اس وضع احتیاط کی زنجیر کے لیے
میں نے بھی کی ہے شہر میں آوارگی بہت


مستانہ وار وادئ غم طے کرو سحرؔ
باقی ہیں زندگی کے تقاضے ابھی بہت