صفیہ راگ علوی کی غزل

    جب چھوڑ دیا مڑ کر ساحل کو نہیں دیکھا

    جب چھوڑ دیا مڑ کر ساحل کو نہیں دیکھا رستے کے مسافر نے منزل کو نہیں دیکھا کیا حوصلہ تھا اس کا کیا کر وہ گیا لوگو تھا جوش جنوں حد فاصل کو نہیں دیکھا وہ لاکھ کرے دعوے پر خاک مجھے سمجھے جس نے کہ مرے جذب کامل کو نہیں دیکھا کیا خوب ہے ہمدردی بے درد مہربانو لاشوں میں الجھتے ہو قاتل کو ...

    مزید پڑھیے

    مت ٹکرانا پتھر بن کر آہن ہم ہو جائیں گے

    مت ٹکرانا پتھر بن کر آہن ہم ہو جائیں گے پیار سے آ کر تم جو ملو گے گلشن ہم ہو جائیں گے راز چھپانا چاہو تو ہم پردے کا بھی کام کریں اور حقیقت چاہو تو پھر درپن ہم ہو جائیں گے ہم کو دشمن مت سمجھو ہم پیار سکھاتے ہیں سب کو جس میں بھرے ہوں پھول وفا کے دامن ہم ہو جائیں گے خوشیوں میں رنگین ...

    مزید پڑھیے

    جب ڈھونڈو گے اپنا کوئی

    جب ڈھونڈو گے اپنا کوئی یاد آئے گا مجھ سا کوئی شہروں شہروں گھوم رہا ہے دیوانہ اک تنہا کوئی انجانے ان چہروں سے بھی لگتا کیوں ہے رشتہ کوئی آنسو چھل چھل بہہ نکلے ہیں کیا یاد آیا اپنا کوئی چل دیتے ہیں آنکھ چرا کر کب ہے آس بندھاتا کوئی شہر سے اس کے آنے والو اس کا سندیسہ لاتا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ بند مکاں بھی رہنے دیں

    کچھ بند مکاں بھی رہنے دیں کچھ راز نہاں بھی رہنے دیں ہر سمت جگائے ہیں محشر کچھ امن و اماں بھی رہنے دیں ہیں جلتے دیپ قیادت کے قدموں کے نشاں بھی رہنے دیں دیتا ہے گواہی عبرت کی اٹھتا یہ دھواں بھی رہنے دیں ہے گرم لہو دیوانوں کا مقتل کے نشاں بھی رہنے دیں خود صید جو چل کر آئے ہیں اب ...

    مزید پڑھیے

    تصویر زندگی کی بنا کر غزل کہوں

    تصویر زندگی کی بنا کر غزل کہوں پھر زندگی میں خود کو بھلا کر غزل کہوں تعبیر غم ہے ایسا یہ خوابوں کا شہر ہے کیسے کسی کو خواب دکھا کر غزل کہوں ہر اک نظر میں جاگتے کتنے سوال ہیں کیسے نظر کسی سے ملا کر غزل کہوں بھوکے یتیم لوریاں ہی سن کے سو گئے آنکھوں میں کیوں نہ اشک سجا کر غزل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2