جب چھوڑ دیا مڑ کر ساحل کو نہیں دیکھا
جب چھوڑ دیا مڑ کر ساحل کو نہیں دیکھا رستے کے مسافر نے منزل کو نہیں دیکھا کیا حوصلہ تھا اس کا کیا کر وہ گیا لوگو تھا جوش جنوں حد فاصل کو نہیں دیکھا وہ لاکھ کرے دعوے پر خاک مجھے سمجھے جس نے کہ مرے جذب کامل کو نہیں دیکھا کیا خوب ہے ہمدردی بے درد مہربانو لاشوں میں الجھتے ہو قاتل کو ...