جب چھوڑ دیا مڑ کر ساحل کو نہیں دیکھا
جب چھوڑ دیا مڑ کر ساحل کو نہیں دیکھا
رستے کے مسافر نے منزل کو نہیں دیکھا
کیا حوصلہ تھا اس کا کیا کر وہ گیا لوگو
تھا جوش جنوں حد فاصل کو نہیں دیکھا
وہ لاکھ کرے دعوے پر خاک مجھے سمجھے
جس نے کہ مرے جذب کامل کو نہیں دیکھا
کیا خوب ہے ہمدردی بے درد مہربانو
لاشوں میں الجھتے ہو قاتل کو نہیں دیکھا
طوفاں سے نپٹنا تھا موجوں سے الجھنا تھا
خطرات میں کشتی نے ساحل کو نہیں دیکھا
احساس اسے ہوگا خود جھوٹی گواہی کا
مقتل میں ابھی اس نے بسمل کو نہیں دیکھا
انصاف کا مندر ہے ایماں کا اجالا بھی
کیوں راگؔ کسی نے بھی اس دل کو نہیں دیکھا