Saeed Saadi

سعید سعدی

سعید سعدی کی غزل

    عشق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے

    عشق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے یہ طوفان ڈبو سکتا ہے جب منزل دھندلا جائے تو رستہ کھوٹا ہو سکتا ہے یادوں کی چادر کو اوڑھے کوئی کیسے سو سکتا ہے آج ملا تو پوچھ رہا تھا کیا اب بھی کچھ ہو سکتا ہے پھول جھڑیں جس کے ہونٹوں سے وہ بھی خار چبھو سکتا ہے میرے دل کی وسعت دیکھو کیا کیا درد سمو ...

    مزید پڑھیے

    تری فرقت کا موسم اور تری یادوں کی رعنائی

    تری فرقت کا موسم اور تری یادوں کی رعنائی انہی سے زندگی کا کچھ ہمیں احساس ہے باقی دلوں کے ٹوٹنے کی گر کوئی آواز ہوتی تو عجب ہوتا اگر کوئی سماعت تاب لے آتی بنا ہے خاک سے لیکن نہ ہو گر خاکساری تو برابر ہے ترا ہونا نہ ہونا پیکر خاکی زباں پہ لا کے دل کی بات میں زیر عتاب آیا اگر چپ چاپ ...

    مزید پڑھیے

    کبھی دور تم سے نہ جا سکا

    کبھی دور تم سے نہ جا سکا میں تمہیں کبھی نہ بھلا سکا ترا قرب تو بڑی دور تھا تری گرد کو بھی نہ پا سکا تری یاد کی شب تار میں میں چراغ تک نہ جلا سکا ترا درد جاگ اٹھا ہے پھر میں نہ سو سکا نہ سلا سکا جو محبتوں کے تھے درمیاں میں وہ فاصلے نہ مٹا سکا

    مزید پڑھیے

    دل کی بات زباں پر لاؤ پھر دیکھو

    دل کی بات زباں پر لاؤ پھر دیکھو ہم کو اپنا حال سناؤ پھر دیکھو ہم تیری باتوں میں بھی آ سکتے ہیں سچ میں تھوڑا جھوٹ ملاؤ پھر دیکھو سورج چاند ستارے توڑ کے لا دوں گا تھوڑی سی امید دلاؤ پھر دیکھو وحشت ہو کا عالم سناٹا اور غم تم اپنے اطراف سجاؤ پھر دیکھو تم نے اس کا کہنا یوں ہی مان ...

    مزید پڑھیے

    دل صد چاک میں کیا رہ گیا ہے

    دل صد چاک میں کیا رہ گیا ہے لہو بہہ بہہ کے آدھا رہ گیا ہے جہاں بانی رہا تھا جس کا شیوہ وہ بالکل بے سہارا رہ گیا ہے بنا بیٹھے ہیں کتنے بت جہاں میں جو سچا ہے وہ تنہا رہ گیا ہے عداوت کے یہ کس نے بیج بوئے ہر اک انساں اکیلا رہ گیا ہے تجھے سعدیؔ تھی دریا کی بشارت مگر آنکھوں میں صحرا رہ ...

    مزید پڑھیے

    اس کی رسوائی میں کچھ ہاتھ مرا ہے تو سہی

    اس کی رسوائی میں کچھ ہاتھ مرا ہے تو سہی کچھ نہ کچھ مجھ میں بھی انداز جفا ہے تو سہی رات فرقت کی شب تار سی لگتی ہے تو کیا ایک امید کا آنکھوں میں دیا ہے تو سہی اجنبیت کا وہ احساس دلاتا ہے مگر اب بھی گفتار میں اک رنگ وفا ہے تو سہی ایک مدت سے جو خاموش تماشائی ہیں ان نگاہوں میں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    بہاروں کے موسم کو کیا ہو گیا ہے

    بہاروں کے موسم کو کیا ہو گیا ہے خزاں کا چلن عام سا ہو گیا ہے کہیں پر زمیں خون میں تر بہ تر ہے کہیں آسماں سرخ سا ہو گیا ہے ہر اک سمت ہے ظلمتوں کا بسیرا اجالا تو جیسے خفا ہو گیا ہے سلگتی ہوئی نفرتوں سے بھرے دل محبت کا جذبہ ہوا ہو گیا ہے مفادات اور مصلحت خود پرستی فسوں کیسا جگ میں ...

    مزید پڑھیے

    نہ مل سکی ہمیں منزل وفا کی راہوں میں

    نہ مل سکی ہمیں منزل وفا کی راہوں میں ہوا نصیب نہ رہنا تری پناہوں میں وہ جب ملا تو بظاہر تھا مطمئن لیکن مچل رہی تھیں کئی حسرتیں نگاہوں میں سکون گھر کا مجھے راس ہی نہیں آیا ہوں ابتدا سے ہی آوارگی کی بانہوں میں مرے مزاج نے چھوڑا نہیں کہیں کا مجھے ہزار انگلیاں اٹھتی ہیں اب تو ...

    مزید پڑھیے