Saeed Saadi

سعید سعدی

سعید سعدی کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    عشق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے

    عشق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے یہ طوفان ڈبو سکتا ہے جب منزل دھندلا جائے تو رستہ کھوٹا ہو سکتا ہے یادوں کی چادر کو اوڑھے کوئی کیسے سو سکتا ہے آج ملا تو پوچھ رہا تھا کیا اب بھی کچھ ہو سکتا ہے پھول جھڑیں جس کے ہونٹوں سے وہ بھی خار چبھو سکتا ہے میرے دل کی وسعت دیکھو کیا کیا درد سمو ...

    مزید پڑھیے

    تری فرقت کا موسم اور تری یادوں کی رعنائی

    تری فرقت کا موسم اور تری یادوں کی رعنائی انہی سے زندگی کا کچھ ہمیں احساس ہے باقی دلوں کے ٹوٹنے کی گر کوئی آواز ہوتی تو عجب ہوتا اگر کوئی سماعت تاب لے آتی بنا ہے خاک سے لیکن نہ ہو گر خاکساری تو برابر ہے ترا ہونا نہ ہونا پیکر خاکی زباں پہ لا کے دل کی بات میں زیر عتاب آیا اگر چپ چاپ ...

    مزید پڑھیے

    کبھی دور تم سے نہ جا سکا

    کبھی دور تم سے نہ جا سکا میں تمہیں کبھی نہ بھلا سکا ترا قرب تو بڑی دور تھا تری گرد کو بھی نہ پا سکا تری یاد کی شب تار میں میں چراغ تک نہ جلا سکا ترا درد جاگ اٹھا ہے پھر میں نہ سو سکا نہ سلا سکا جو محبتوں کے تھے درمیاں میں وہ فاصلے نہ مٹا سکا

    مزید پڑھیے

    دل کی بات زباں پر لاؤ پھر دیکھو

    دل کی بات زباں پر لاؤ پھر دیکھو ہم کو اپنا حال سناؤ پھر دیکھو ہم تیری باتوں میں بھی آ سکتے ہیں سچ میں تھوڑا جھوٹ ملاؤ پھر دیکھو سورج چاند ستارے توڑ کے لا دوں گا تھوڑی سی امید دلاؤ پھر دیکھو وحشت ہو کا عالم سناٹا اور غم تم اپنے اطراف سجاؤ پھر دیکھو تم نے اس کا کہنا یوں ہی مان ...

    مزید پڑھیے

    دل صد چاک میں کیا رہ گیا ہے

    دل صد چاک میں کیا رہ گیا ہے لہو بہہ بہہ کے آدھا رہ گیا ہے جہاں بانی رہا تھا جس کا شیوہ وہ بالکل بے سہارا رہ گیا ہے بنا بیٹھے ہیں کتنے بت جہاں میں جو سچا ہے وہ تنہا رہ گیا ہے عداوت کے یہ کس نے بیج بوئے ہر اک انساں اکیلا رہ گیا ہے تجھے سعدیؔ تھی دریا کی بشارت مگر آنکھوں میں صحرا رہ ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    فاصلے

    قربتوں کے فاصلے جو تھے وہ کم نہیں ہوئے دلوں میں ہیں جو رنجشیں وہ برسہا برس سے ہیں اسی طرح سے موجزن محبتوں کی ڈالیاں کبھی کی خشک ہو چکیں منافقت کی چادریں دلوں پہ ہیں چڑھی ہوئیں یہ الفتوں کی رہ گزر ہے سونی آج کس قدر ہیں ساتھ سب بظاہر اب مگر وہ پیار کی شمع جو روشنی کا تھی سبب وہ بجھ ...

    مزید پڑھیے

    جگنو

    جب سورج اپنی کرنوں کی چادر کو سمیٹے دور افق کے پار کہیں چھپ جاتا ہے اور چاند ستارے آوارہ بادل کے ٹکڑوں کے ہم راہ جب آنکھ مچولی کھیلتے ہیں تب دل کے گھور اندھیروں میں کہیں دور کسی گہرائی میں تری یادوں کے ننھے جگنو مرے دل کے اس اندھیارے کو اجلانے کی کوشش کرتے ہیں

    مزید پڑھیے