شور کیسا ہے مبتلا مجھ میں

شور کیسا ہے مبتلا مجھ میں
کون رہتا ہے دوسرا مجھ میں


میں کسی جبر کے حصار میں ہوں
اک سفر ہے رکا ہوا مجھ میں


جانے کیا تھا کہ رات اس کا خیال
راستہ ڈھونڈھتا رہا مجھ میں


ٹمٹماتے رہے گلی کے چراغ
رقص کرتی رہی ہوا مجھ میں


کب سے اپنی تلاش ہے مجھ کو
تو نے کیا کیا چھپا دیا مجھ میں


کتنا سرسبز ہو گیا ہوں میں
کون سا زخم تھا ہرا مجھ میں


اس قدر غور سے نہ دیکھ مجھے
عکس پڑتا ہے چاند کا مجھ میں


قیسؔ وہ شخص عام سا تھا مگر
کتنے منظر سجا گیا مجھ میں