صابر وسیم کی غزل

    کرتا ہے کوئی اور بھی گریہ مرے دل میں

    کرتا ہے کوئی اور بھی گریہ مرے دل میں رہتا ہے کوئی اور بھی مجھ سا مرے دل میں وہ مل گیا پھر بھی یہ لگاتار اداسی شاید ہے کوئی اور بھی دھڑکا مرے دل میں اک رنج میں ڈوبا ہوا بے نام مسافر آیا تھا بڑی دور سے ٹھہرا مرے دل میں جس شام کو بھولے ہوئے اک عمر ہوئی تھی چمکا ہے اسی شام کا تارا مرے ...

    مزید پڑھیے

    تمام معجزے ساری شہادتیں لے کر

    تمام معجزے ساری شہادتیں لے کر میں آب و خاک سے گزرا عداوتیں لے کر خود اپنے حرف کے شعلے میں جل کے لوٹا ہوں میں اک سفر پہ گیا تھا حکایتیں لے کر کشاں کشاں لب ساحل اتر گئی مجھ میں اداس رات سمندر کی وسعتیں لے کر حد زمان و مکاں سے گزر رہا ہوں میں خود اپنے ہونے نہ ہونے کی حیرتیں لے ...

    مزید پڑھیے

    خواب تمہارے آتے ہیں

    خواب تمہارے آتے ہیں نیند اڑا لے جاتے ہیں آج لکھیں گے حال اپنا سوچتے ہیں ڈر جاتے ہیں عشق بہت سچا ہے ہم تارے توڑ کے لاتے ہیں رسوائی کا خوف نہیں شہرت سے گھبراتے ہیں نام تمہارا آتا ہے یادوں میں کھو جاتے ہیں دل میں درد سا اٹھتا ہے درد میں ڈوبے جاتے ہیں اس کا دھیان جب آتا ہے ایک ...

    مزید پڑھیے

    گل و مہتاب لکھنا چاہتا ہوں

    گل و مہتاب لکھنا چاہتا ہوں میں اپنے خواب لکھنا چاہتا ہوں محبت سے بھرا ہے دل کا دریا مگر پایاب لکھنا چاہتا ہوں لکھوں کیسے کہ سارے شعر تم پر بہت نایاب لکھنا چاہتا ہوں میں اپنا اور تمہارا نام اک دن کنار آب لکھنا چاہتا ہوں میں خود کو بادشاہ عشق لکھ کر تمہیں بے تاب لکھنا چاہتا ...

    مزید پڑھیے

    وہ پھول تھا جادو نگری میں جس پھول کی خوشبو بھائی تھی

    وہ پھول تھا جادو نگری میں جس پھول کی خوشبو بھائی تھی اسے لانا جان گنوانا تھا اور اپنی جان پرائی تھی وہ رات کا طول طویل سفر کیا کہئے کیسے آئی سحر کچھ میں نے قصہ چھیڑا تھا کچھ اس نے آس بندھائی تھی خوابوں سے ادھر کی مسافت میں جو گزری ہے کیا پوچھتے ہو اک وحشت چار پہر کی تھی اک جلتی ...

    مزید پڑھیے

    جو خواب میرے نہیں تھے میں ان کو دیکھتا تھا

    جو خواب میرے نہیں تھے میں ان کو دیکھتا تھا اسی لیے آنکھ کھل گئی تھی اسی لیے دل دکھا ہوا تھا اداسیوں سے بھری ہوئی التجا سنی تھی کسی نگر میں کوئی کسی کو پکارتا تھا وہ اک صدا تھی کہ ہفت عالم میں گونجتی تھی نہ جانے کیسے کوئی کسی سے بچھڑ گیا تھا عجیب حیرت بکھیرتے تھے وہ داستاں گو کہ ...

    مزید پڑھیے

    اک شکل بے ارادہ سر بام آ گئی

    اک شکل بے ارادہ سر بام آ گئی پھر زندگی میں فیصلے کی شام آ گئی دشت و مکاں کے فاصلے بے رنگ و نور تھے اک رنگ لے کے گردش ایام آ گئی وہ رہ گزر جو آئی تو سر کو سجا لیا دامن کی خاک آج مرے کام آ گئی پھر اک حصار ٹوٹ گیا اختیار کا پھر اک صدائے کوچۂ الزام آ گئی ہم بولتے رہے تو رہے لفظ سنگ ...

    مزید پڑھیے

    اک آگ دیکھتا تھا اور جل رہا تھا میں

    اک آگ دیکھتا تھا اور جل رہا تھا میں وہ شام آئی مگر ہاتھ مل رہا تھا میں یہ عمر کیسے گزاری بس اتنا یاد ہے اب اداس رات کے صحرا پہ چل رہا تھا میں بس ایک ضد تھی سو خود کو تباہ کرتا رہا نصیب اس کے کہ پھر بھی سنبھل رہا تھا میں بھری تھی اس نے رگ و پے میں برف کی ٹھنڈک سو ایک برف کی صورت پگھل ...

    مزید پڑھیے

    کھلے ہوئے ہیں پھول ستارے دریا کے اس پار

    کھلے ہوئے ہیں پھول ستارے دریا کے اس پار اچھے لوگ بسے ہیں سارے دریا کے اس پار مہکی راتیں دوست ہوائیں پچھلی شب کا چاند رہ گئے سب خوش خواب نظارے دریا کے اس پار بس یہ سوچ کے سرشاری ہے اب بھی اپنے لیے بہتے ہیں خوشبو کے دھارے دریا کے اس پار شام کو زندگی کرنے والے رنگ برنگے پھول پھول ...

    مزید پڑھیے

    اک سفر پر اسے بھیج کر آ گئے

    اک سفر پر اسے بھیج کر آ گئے یہ گماں ہے کہ ہم جیسے گھر آ گئے وہ گیا ہے تو خوشیاں بھی ساری گئیں شاخ دل پر خزاں کے ثمر آ گئے لاکھ چاہو مگر پھر وہ رکتے نہیں جن پرندوں کے بھی بال و پر آ گئے ہم تو رستے پہ بیٹھے ہیں یہ سوچ کر جو گئے تھے اگر لوٹ کر آ گئے اس سے مل کے بھی کب اس سے مل پائے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3