تمام معجزے ساری شہادتیں لے کر
تمام معجزے ساری شہادتیں لے کر
میں آب و خاک سے گزرا عداوتیں لے کر
خود اپنے حرف کے شعلے میں جل کے لوٹا ہوں
میں اک سفر پہ گیا تھا حکایتیں لے کر
کشاں کشاں لب ساحل اتر گئی مجھ میں
اداس رات سمندر کی وسعتیں لے کر
حد زمان و مکاں سے گزر رہا ہوں میں
خود اپنے ہونے نہ ہونے کی حیرتیں لے کر
ابھی تو زخم سلے تھے کہ آسماں سے کوئی
مری طرف چلا آیا جراحتیں لے کر
زمیں کے لوگو سنو حشر اب نہ اٹھے گا
گزر گیا کوئی ساری قیامتیں لے کر
اکیلا شہر میں پھرتا ہوں سارا دن صابرؔ
میں اپنے بچھڑے ہوؤں کی شباہتیں لے کر