اک شکل بے ارادہ سر بام آ گئی

اک شکل بے ارادہ سر بام آ گئی
پھر زندگی میں فیصلے کی شام آ گئی


دشت و مکاں کے فاصلے بے رنگ و نور تھے
اک رنگ لے کے گردش ایام آ گئی


وہ رہ گزر جو آئی تو سر کو سجا لیا
دامن کی خاک آج مرے کام آ گئی


پھر اک حصار ٹوٹ گیا اختیار کا
پھر اک صدائے کوچۂ الزام آ گئی


ہم بولتے رہے تو رہے لفظ سنگ راہ
چپ ہو گئے تو منزل الہام آ گئی


صابرؔ زمیں پہ رنج بھی اس نے اتارے ہیں
لیکن یہ فرد جرم مرے نام آ گئی