صابر وسیم کی غزل

    لوگو یہ عجیب سانحہ ہے

    لوگو یہ عجیب سانحہ ہے مجھ میں کوئی قتل ہو رہا ہے کس کی ہے تلاش کیا بتائیں اپنا ہی وجود کھو گیا ہے سوئیں گے ازل میں جا کے ہم سب دنیا تو عظیم رت جگا ہے سچ کو ہے دوام اس جہاں میں مجھ سے تو یہی کہا گیا ہے مرنا ہے یہاں بہت غنیمت جینا تو محال ہو چکا ہے دے گا وہ ضرور سنگ مجھ کو جس نے ...

    مزید پڑھیے

    دیکھو ایسا عجب مسافر پھر کب لوٹ کے آتا ہے

    دیکھو ایسا عجب مسافر پھر کب لوٹ کے آتا ہے دریا اس کو رستہ دے کر آج تلک پچھتاتا ہے جنگل جنگل گھومنے والا اپنے دھیان کی دستک سے کوسوں دور اک گھر میں کسی کو ساری رات جگاتا ہے جانے کس کی آس لگی ہے جانے کس کو آنا ہے کوئی ریل کی سیٹی سن کر سوتے سے اٹھ جاتا ہے میری گلی کے سامنے والے گھر ...

    مزید پڑھیے

    یہ عمر بھر کا سفر ہے اسی سہارے پر

    یہ عمر بھر کا سفر ہے اسی سہارے پر کہ وہ کھڑا ہے ابھی دوسرے کنارے پر اندھیرا ہجر کی وحشت کا رقص کرتا ہے تمام رات مری آنکھ کے ستارے پر ہوائے شام ترے ساتھ ہم بھی جھومتے ہیں کسی خیال کسی رنگ کے اشارے پر کسی کی یاد ستائے تو جا کے رکھ آنا مہکتے پھول کسی آب جو کے دھارے پر افق کے پار ...

    مزید پڑھیے

    مرے دھیان میں ہے اک محل کہیں چوباروں کا

    مرے دھیان میں ہے اک محل کہیں چوباروں کا وہاں جاؤں کیسے رستہ ہے انگاروں کا وہاں ہریالی کے کنج میں ایک بسیرا ہے وہاں دریا بہتا رہتا ہے مہکاروں کا تم دل کا دریچہ کھول کے باہر دیکھو تو انبوہ گزرنے والا ہے دل داروں کا مری خلوت کو یہ انسانوں کا جنگل ہے مری وحشت کو یہ صحرا ہے دیواروں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3