صابر وسیم کی غزل

    کھیل رچایا اس نے سارا ورنہ پھر کیوں ہوتا میں

    کھیل رچایا اس نے سارا ورنہ پھر کیوں ہوتا میں اس نے ہی یہ بھیڑ لگائی بنا ہوں صرف تماشا میں اس نے اپنے دم کو پھونکا اور مجھے بیدار کیا میں پانی تھا میں ذرہ تھا لمبی نیند سے جاگا میں اس نے پہلے روپ دیا پھر رنگ دیا پھر اذن دیا بحر و بر میں برگ و ثمر میں نئے سفر پر نکلا میں آئینے کی ...

    مزید پڑھیے

    وہ دھوپ وہ گلیاں وہی الجھن نظر آئے

    وہ دھوپ وہ گلیاں وہی الجھن نظر آئے اس شہر سے اس شہر کا آنگن نظر آئے اس غم کے اجالے میں جو اک شخص کھڑا ہے وہ دور سے مجھ کو مرا ساجن نظر آئے اک ہجر کے شعلے میں کئی بار جلے ہم اس آس میں شاید کہ نیا پن نظر آئے یہ رات گئے کون ہے اس پیڑ کے نیچے اک دیپ سا ہر شاخ پہ روشن نظر آئے وہ بات کہو ...

    مزید پڑھیے

    راہ میں شہر طرب یاد آیا

    راہ میں شہر طرب یاد آیا جو بھلایا تھا وہ سب یاد آیا جانے اب صبح کا عالم کیا ہو آج وہ آخر شب یاد آیا ہم پہ گزرا ہے وہ لمحہ اک دن کچھ نہیں یاد تھا رب یاد آیا جب نہیں عمر تو وہ پھول کھلا کب کا بچھڑا ہوا کب یاد آیا رقص کرنے لگی تاروں بھری شب تو بھی اس رات عجب یاد آیا کتنا اقرار چھپا ...

    مزید پڑھیے

    اک شور سمیٹو جیون بھر اور چپ دریا میں اتر جاؤ

    اک شور سمیٹو جیون بھر اور چپ دریا میں اتر جاؤ دنیا نے تم کو تنہا کیا تم اس کو تنہا کر جاؤ اس ہجر و وصال کے بیچ کہیں اک لمحے کو جی چاہتا ہے بس ابر و ہوا کے ساتھ پھرو اور جسم و جاں سے گزر جاؤ تم ریزہ ریزہ ہو کر بھی جو خود کو سمیٹے پھرتے ہو سو اب کے ہوا پژمردہ ہے اس بار ذرا سا بکھر ...

    مزید پڑھیے

    اسیر شام ہیں ڈھلتے دکھائی دیتے ہیں

    اسیر شام ہیں ڈھلتے دکھائی دیتے ہیں یہ لوگ نیند میں چلتے دکھائی دیتے ہیں وہ اک مکان کہ اس میں کوئی نہیں رہتا مگر چراغ سے جلتے دکھائی دیتے ہیں یہ کیسا رنگ نظر آیا اس کی آنکھوں میں کہ سارے رنگ بدلتے دکھائی دیتے ہیں وہ کون لوگ ہیں جو تشنگی کی شدت سے کنار آب پگھلتے دکھائی دیتے ...

    مزید پڑھیے

    پہلا پتھر یاد ہمیشہ رہتا ہے

    پہلا پتھر یاد ہمیشہ رہتا ہے دکھ سے دل آباد ہمیشہ رہتا ہے پاس رہیں یا دور مگر ان آنکھوں میں موسم ابر و باد ہمیشہ رہتا ہے قید کی خواہش اس کا دکھ بن جاتی ہے جو پنچھی آزاد ہمیشہ رہتا ہے ایک گل بے مہر کھلانے کی خاطر قریۂ دل برباد ہمیشہ رہتا ہے اس کے لیے میں کیا کیا سوانگ رچاتا ...

    مزید پڑھیے

    اس جنگل سے جب گزرو گے تو ایک شوالہ آئے گا

    اس جنگل سے جب گزرو گے تو ایک شوالہ آئے گا وہاں رک جانا وہاں رہ جانا وہاں سکھ کا اجالا آئے گا یہ سوچ کے اٹھنا ہر دن تم اس دل کا پھول کھلے گا ضرور اس آس پہ سونا اب کی شب کوئی خواب نرالا آئے گا جب اس کے ہاتھ نیا ماضی اس صفحۂ ارض پہ لکھیں گے جب سحر و شام رقم ہوں گے تب میرا حوالہ آئے ...

    مزید پڑھیے

    پلکوں پر نم کیا پھیل گیا

    پلکوں پر نم کیا پھیل گیا ہر سمت دھواں سا پھیل گیا مری ریکھا پوش ہتھیلی پر اک شام کا سایا پھیل گیا جو حرف چھپایا لوگوں سے وہ چہرہ بہ چہرہ پھیل گیا ترا نام لیا تو صحرا میں اک سایہ اترا پھیل گیا اب میرے اور خدا کے بیچ اک ہجر کا لمحہ پھیل گیا جب نئے سفر پر نکلا میں رستوں پر صدمہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ مہر و مہ بے چراغ ایسے کہ راکھ بن کر بکھر رہے ہیں

    یہ مہر و مہ بے چراغ ایسے کہ راکھ بن کر بکھر رہے ہیں ہم اپنی جاں کا دیا بجھائے کسی گلی سے گزر رہے ہیں یہ دکھ جو مطلوب کا ملا ہے فشار اپنی ہی ذات کا ہے کہ ہم خود اپنی تلاش میں ہیں اور اپنے صدموں سے مر رہے ہیں وجود کیوں ہے شہود کیوں ہے ثبات کیا ہے نجات کیا ہے انہی سوالوں کی آگ لے کر ہم ...

    مزید پڑھیے

    خزاں سے سینہ بھرا ہو لیکن تم اپنا چہرہ گلاب رکھنا

    خزاں سے سینہ بھرا ہو لیکن تم اپنا چہرہ گلاب رکھنا تمام تعبیر اس کو دینا اور اپنے حصے میں خواب رکھنا ہر اک زمیں سے ہر آسماں سے ہر اک زماں سے گزرتے رہنا کہیں پہ تارے بکھیر دینا کہیں کوئی ماہتاب رکھنا جو بے گھری کے دکھوں سے تم بھی اداس ہو جاؤ ہار جاؤ تو آنسوؤں سے مکاں بنانا اور اس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3