اک سفر پر اسے بھیج کر آ گئے

اک سفر پر اسے بھیج کر آ گئے
یہ گماں ہے کہ ہم جیسے گھر آ گئے


وہ گیا ہے تو خوشیاں بھی ساری گئیں
شاخ دل پر خزاں کے ثمر آ گئے


لاکھ چاہو مگر پھر وہ رکتے نہیں
جن پرندوں کے بھی بال و پر آ گئے


ہم تو رستے پہ بیٹھے ہیں یہ سوچ کر
جو گئے تھے اگر لوٹ کر آ گئے


اس سے مل کے بھی کب اس سے مل پائے ہم
بیچ میں خواہشوں کے شجر آ گئے


اس نے اس پار اپنا بسیرا کیا
ہم نے دریا کو چھوڑا ادھر آ گئے


ایک دشمن سے ملنے گئے تھے مگر
اک محبت کے زیر اثر آ گئے