راہ میں شہر طرب یاد آیا

راہ میں شہر طرب یاد آیا
جو بھلایا تھا وہ سب یاد آیا


جانے اب صبح کا عالم کیا ہو
آج وہ آخر شب یاد آیا


ہم پہ گزرا ہے وہ لمحہ اک دن
کچھ نہیں یاد تھا رب یاد آیا


جب نہیں عمر تو وہ پھول کھلا
کب کا بچھڑا ہوا کب یاد آیا


رقص کرنے لگی تاروں بھری شب
تو بھی اس رات عجب یاد آیا


کتنا اقرار چھپا تھا اس میں
تیرے انکار کا ڈھب یاد آیا


ہوش اڑنے لگے ناصرؔ کی طرح
آج وہ یار غضب یاد آیا