پلکوں پر نم کیا پھیل گیا

پلکوں پر نم کیا پھیل گیا
ہر سمت دھواں سا پھیل گیا


مری ریکھا پوش ہتھیلی پر
اک شام کا سایا پھیل گیا


جو حرف چھپایا لوگوں سے
وہ چہرہ بہ چہرہ پھیل گیا


ترا نام لیا تو صحرا میں
اک سایہ اترا پھیل گیا


اب میرے اور خدا کے بیچ
اک ہجر کا لمحہ پھیل گیا


جب نئے سفر پر نکلا میں
رستوں پر صدمہ پھیل گیا


شاموں کی سرخی سمٹ گئی
راتوں کا قصہ پھیل گیا


میں پیاس بجھانے پہنچا تو
دریا میں صحرا پھیل گیا


اس ارض و سما کی وسعت میں
دکھ تیرا میرا پھیل گیا