عورت

عورت کو سمجھو نہ جاگیر اپنی
نہ یہ خواب اپنا نہ تعبیر اپنی


الجھتی ہے خود سے یہ لاچار ہو کر
ہر اک بات سمجھے یہ تقصیر اپنی


یہ کرتی ہے ہر اک ستم کو گوارا
بناتی ہے ایسے یہ تقدیر اپنی


ستائے گا اس کو بتا کیا زمانہ
سناں جس کی اپنی ہے شمشیر اپنی


نوالے کی خاطر یہ حرمت نہ بیچے
سنبھالے یہ عزت و توقیر اپنی


کرے دفن خواہش کو اپنے ہی ہاتھوں
مسخ کیوں کرے گی یہ تصویر اپنی


شکایت لبوں پہ نہ لائے گی ہرگز
طبیعت رہے چاہے دلگیر اپنی


اگر یوں ہی چلتا رہا سلسلہ تو
یقیناً یہ توڑے گی زنجیر اپنی