Riyaz Latif

ریاض لطیف

ممتاز مابعد جدید شاعر۔ گجرات میں مقیم

One of the most prominent post-modern poets, living in Gujrat.

ریاض لطیف کی غزل

    کسی بے گھر جہاں کا راز ہونا چاہیئے تھا

    کسی بے گھر جہاں کا راز ہونا چاہیئے تھا ہمیں اس دشت میں پرواز ہونا چاہیئے تھا ہمارے خون میں بھی کوئی بچھڑی لہر آئی ہوا کے ہاتھ میں اک ساز ہونا چاہیئے تھا ہمارے لا مکاں چہرے میں آئینوں کے جنگل ہمیں ان میں ترا انداز ہونا چاہیئے تھا یہیں پر ختم ہونی چاہیئے تھی ایک دنیا یہیں سے بات ...

    مزید پڑھیے

    غیبی دنیاؤں سے تنہا کیوں آتا ہے

    غیبی دنیاؤں سے تنہا کیوں آتا ہے دو ہونٹوں کے بیچ یہ دریا کیوں آتا ہے جیسے میں اپنی آنکھوں میں ڈوب رہا ہوں غیروں کو اکثر یہ سپنا کیوں آتا ہے میری راتوں کے سارے اسرار سمیٹے مجھ سے پہلے میرا سایا کیوں آتا ہے جہتوں کے برزخ میں پاؤں الجھ جاتے ہیں رستے میں سانسوں کا راستا کیوں آتا ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک خلیہ کو آئینہ گھر بناتے ہوئے

    ہر ایک خلیہ کو آئینہ گھر بناتے ہوئے بہت بٹا ہوں بدن معتبر بناتے ہوئے میرے نزول میں سات آسماں کی گردش ہے اتر رہا ہوں دلوں میں بھنور بناتے ہوئے عدم کی رگ میں جو اک لہر ہے وہیں سے کہیں گزر گیا ہوں سفر مختصر بناتے ہوئے مری ہتھیلی پہ ٹھہرا ہے ارتقا کا بہاؤ جہاں کی خاک سے اپنا کھنڈر ...

    مزید پڑھیے

    تاخیر آ پڑی جو بدن کے ظہور میں

    تاخیر آ پڑی جو بدن کے ظہور میں ہم نے خلائیں گھول دیں بین السطور میں مٹی کو اپنی رات میں تحلیل کر دیا اک سر زمیں سمیٹ لی تاروں کے نور میں ممکن ہے ترک ہی کرے وہ حشر کا خیال دل کا سکوت پھونک کے آیا ہوں صور میں اک نقطۂ غیاب میں ڈھلنے لگے فلک بھٹکا ہوں اتنی دور بھی تحت الشعور ...

    مزید پڑھیے

    مرے سمٹے لہو کا استعارا لے گیا کوئی

    مرے سمٹے لہو کا استعارا لے گیا کوئی مجھے پھیلا گیا ہر سو کنارا لے گیا کوئی بس اب تو مانگتا پھرتا ہوں اپنے آپ کو سب سے مری سانسوں میں جو کچھ تھا وہ سارا لے گیا کوئی بدن میں جو خلاؤں کا نگر تھا وہ بھی خالی ہے مری تہذیب کا تنہا منارا لے گیا کوئی جہاں سے بھاگ نکلا تھا وہیں پتھر ہوا ...

    مزید پڑھیے

    نیا عدم کوئی نئی حدوں کا انتخاب اب

    نیا عدم کوئی نئی حدوں کا انتخاب اب اتار لوں میں رخ سے یہ دوام کا نقاب اب ہم اپنی زندگی کو خود سے دور لے کے جائیں گے کہ پھوٹنے ہی والا ہے خلا کا یہ حباب اب جنم نہ لے سکے ترے بھنور کی آنکھ میں تو کیا ہم اور پانیوں میں ڈھونڈ لیں گے اک سراب اب صدا سکوت جو بھی چاہیئے اٹھا لے اس ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنا انتظار بھی

    خود اپنا انتظار بھی ہم اپنے میں قرار بھی صفر کا ریگ زار بھی مگر مرا دیار بھی لہو مرا سکوت بھی جنوں کا شاہکار بھی سفر میں مرحلہ بنا دوام کا حصار بھی نظر اٹھا کے کر دیا خلا کے دل پہ وار بھی تراشی ہم نے روح جب اٹھا تھا کچھ غبار بھی گزر چکے ہیں بارہا خدا کے آر پار بھی ریاضؔ ...

    مزید پڑھیے

    گزر چکے ہیں بدن سے آگے نجات کا خواب ہم ہوئے ہیں

    گزر چکے ہیں بدن سے آگے نجات کا خواب ہم ہوئے ہیں محیط سانسوں کے پار جا کر بہت ہی نایاب ہم ہوئے ہیں کسی نے ہم کو عطا نہیں کی ہماری گردش ہے اپنی گردش خود اپنی مرضی سے اس جہاں کی رگوں میں گرداب ہم ہوئے ہیں عجیب کھوئے ہوئے جہانوں کی گونج ہے اپنے گنبدوں میں نہ جانے کس کی سماعتوں کے ...

    مزید پڑھیے

    حصار کے سبھی نظام گرد گرد ہو گئے

    حصار کے سبھی نظام گرد گرد ہو گئے ہم اپنے اپنے جسم میں خلا نورد ہو گئے روانیاں صفر ہوئیں مسافتیں کھنڈر ہوئیں نجات کے تمام شاہکار سرد ہو گئے ہوائے جاں کا کیا میاں اٹھا گئی اڑا گئی جمے نہ تھے بدن میں ہم کہ پھر سے گرد ہو گئے عبارتوں میں آ بسی عجیب رت سکوت کی قلم کی شاخ کے تمام برگ ...

    مزید پڑھیے

    کھینچ کر لے جائے گا انجان محور کی طرف

    کھینچ کر لے جائے گا انجان محور کی طرف ہے بدن کا راستہ باہر سے اندر کی طرف وہ بھی اپنے سانس کے سیلاب میں ہے لاپتہ جو مجھے پھیلا گیا میرے ہی منظر کی طرف اب خلاؤں کو سمیٹے ہر طرف ہوں گامزن آج ہے میرا سفر اپنے ہی پیکر کی طرف کوئی تو پانی کی ویرانی کو سمجھے گا کبھی دیکھتا رہتا ہوں اب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3