مرے سمٹے لہو کا استعارا لے گیا کوئی
مرے سمٹے لہو کا استعارا لے گیا کوئی
مجھے پھیلا گیا ہر سو کنارا لے گیا کوئی
بس اب تو مانگتا پھرتا ہوں اپنے آپ کو سب سے
مری سانسوں میں جو کچھ تھا وہ سارا لے گیا کوئی
بدن میں جو خلاؤں کا نگر تھا وہ بھی خالی ہے
مری تہذیب کا تنہا منارا لے گیا کوئی
جہاں سے بھاگ نکلا تھا وہیں پتھر ہوا آخر
مجھے سانسوں کی سرحد تک دوبارا لے گیا کوئی
ازل سے اب تلک مجھ کو اشارے کر رہا تھا جو
شب نا آشنا سے وہ ستارہ لے گیا کوئی