نیا عدم کوئی نئی حدوں کا انتخاب اب
نیا عدم کوئی نئی حدوں کا انتخاب اب
اتار لوں میں رخ سے یہ دوام کا نقاب اب
ہم اپنی زندگی کو خود سے دور لے کے جائیں گے
کہ پھوٹنے ہی والا ہے خلا کا یہ حباب اب
جنم نہ لے سکے ترے بھنور کی آنکھ میں تو کیا
ہم اور پانیوں میں ڈھونڈ لیں گے اک سراب اب
صدا سکوت جو بھی چاہیئے اٹھا لے اس گھڑی
میں بند کر رہا ہوں ایسے مرحلوں کے باب اب
جہاں ہے جو کہاں ہے وہ جہاں نہیں ہے سب وہیں
تراشنے لگا ہوں کس طلسم سے میں خواب اب
جہاں ہے عکس کا کھنڈر امڈ پڑے ہیں سب ادھر
ریاضؔ ہو رہا ہے تیرا آئنہ خراب اب