Riyaz Latif

ریاض لطیف

ممتاز مابعد جدید شاعر۔ گجرات میں مقیم

One of the most prominent post-modern poets, living in Gujrat.

ریاض لطیف کی غزل

    جسموں کی محراب میں رہنا پڑتا ہے

    جسموں کی محراب میں رہنا پڑتا ہے ایک مسلسل خواب میں رہنا پڑتا ہے اپنی گہرائی بھی ناپ نہیں سکتے اور ہمیں پایاب میں رہنا پڑتا ہے روحوں پر مل کر دنیا کے سناٹے آوازوں کے باب میں رہنا پڑتا ہے امڈا رہتا ہے جو تیری آنکھوں میں ایسے بھی سیلاب میں رہنا پڑتا ہے انگڑائی لیتے ہیں مجھ میں ...

    مزید پڑھیے

    جال رگوں کا گونج لہو کی سانس کے تیور بھول گئے

    جال رگوں کا گونج لہو کی سانس کے تیور بھول گئے کتنی فنائیں کتنی بقائیں اپنے اندر بھول گئے جنم جنم تک قید رہا اک بے معنی انگڑائی میں میں ہوں وہ محراب جسے میرے ہی پتھر بھول گئے جانے کیا کیا گیت سنائے گردش کی سرگوشی نے بے چہرہ سیارے مجھ میں اپنا محور بھول گئے بیتی ہوئی صدیوں کا ...

    مزید پڑھیے

    سب خلاؤں کو خلاؤں سے بھگو سکتا ہے

    سب خلاؤں کو خلاؤں سے بھگو سکتا ہے آدمی روح کے اندر بھی تو رو سکتا ہے یہ سیاہی کا سرا جانے کہاں ہاتھ آئے مرا سایا ترا باطن بھی تو ہو سکتا ہے دسترس تیرے سمندر کی ہے تجھ سے بھی پرے تو مجھے آنکھ سے باہر بھی ڈبو سکتا ہے لے تو آیا ہے مجھے موت کی گردش سے الگ تو مجھے سانس کے محور پہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    خلا کی روح کس لیے ہو میرے اختیار میں

    خلا کی روح کس لیے ہو میرے اختیار میں اڑان کا تو ذکر تک نہ تھا مرے فرار میں کبھی تو منظروں کے اس طلسم سے ابھر سکوں کھڑا ہوں دل کی سطح پر خود اپنے انتظار میں یہ ساعتوں کی بھیڑ نے اسے گنوا دیا نہ ہو رکھا تھا میں نے ایک لمس وقت کی درار میں سفر میں مرحلوں کی رسم بھی ہے اب بجھی بجھی وہی ...

    مزید پڑھیے

    کنارہ در کنارہ مستقل منجدھار ہے یوں بھی

    کنارہ در کنارہ مستقل منجدھار ہے یوں بھی مرے پانی میں جو کچھ ہے وہ یوں پر اسرار ہے یوں بھی بہا جاتا ہوں اکثر دور لمحوں کے حصاروں سے مرے ٹھہراؤ کے آغوش میں رفتار ہے یوں بھی کہاں خلیوں کے ویرانوں میں اس کو ڈھونڈنے جائیں زمانوں کا سرا میرے سرے سے پار ہے یوں بھی یہاں سے یوں بھی اک ...

    مزید پڑھیے

    میں وہاں ہوں کہ نہیں چاہے تو جا کر دیکھے

    میں وہاں ہوں کہ نہیں چاہے تو جا کر دیکھے کوزہ گر خود مری مٹی میں سما کر دیکھے بعد میں رکھے سرابوں کے دیاروں میں قدم پہلے وہ سانس کی سرحد پہ تو آ کر دیکھے مرے اظہار کو کچھ اور ثمرور کر دے وہ مجھے لمس کی شاخوں پہ اگا کر دیکھے گونج اٹھے کوئی کھوئی ہوئی دنیا شاید مرے خلیوں میں وہ ...

    مزید پڑھیے

    لے جاؤں کہیں ان کو بدن پار ہی رکھوں

    لے جاؤں کہیں ان کو بدن پار ہی رکھوں میں اپنی خلاؤں کو پر اسرار ہی رکھوں آنکھوں سے گروں اور اٹھوں دشت فلک تک پانی ہوں تو سطحیں مری ہموار ہی رکھوں دنیا کو بھی لے آؤں کبھی نوک زباں تک غائب ہے جو اس کو سر اظہار ہی رکھوں لمحوں کی دراڑوں میں اگاؤں کوئی جذبہ ہے وقت کھنڈر تو اسے مسمار ...

    مزید پڑھیے

    ریت ہے اظہار کے پانی کے پار

    ریت ہے اظہار کے پانی کے پار اور ویرانی ہے ویرانی کے پار موت کی تشکیل سے ابھرا ہوا کون ہے میری فراوانی کے پار آ نہ پائی مجھ تلک یہ کائنات رہ گئی سانسوں کی طغیانی کے پار پھیل کر تجھ میں نہ بس جاؤں کہیں رنگ مجھ کو رنگ امکانی کے پار کون پھوٹے گا عدم کی کوکھ سے کون لافانی ہے لافانی ...

    مزید پڑھیے

    تمام خلیوں میں اکثر سنائی دیتا ہے

    تمام خلیوں میں اکثر سنائی دیتا ہے ہر اک جہان میں محشر سنائی دیتا ہے جو چھو کے دیکھوں تو گردش کی تہہ میں گردش ہے دھروں جو کان تو محور سنائی دیتا ہے ہزار میلوں بچھی ارتقا کی مٹی پر بدن میں اب بھی سمندر سنائی دیتا ہے لچکتی رات میں سیارگاں کی چاپ سنو جو مجھ میں جذب ہے باہر سنائی ...

    مزید پڑھیے

    بدن کے گنبد خستہ کو صاف کیا کرتا

    بدن کے گنبد خستہ کو صاف کیا کرتا ترے جہاں میں نئے انکشاف کیا کرتا عدم کے اونگھتے پانی میں جب تھی میری لہر مرے وجود سے میں اختلاف کیا کرتا نہ کوئی شور تھا اس میں نہ کوئی سناٹا میں اپنے روح کے گونگے طواف کیا کرتا کہ اک دوام کے تیور تھے مرتعش اس پر سفر کی گرد سے میں انحراف کیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3