Razi Akhtar Shauq

رضی اختر شوق

رضی اختر شوق کی غزل

    اب سفر ہو تو کوئی خواب نما لے جائے

    اب سفر ہو تو کوئی خواب نما لے جائے کوئی آئے مجھے پلکوں پہ اٹھا لے جائے خود میں جھوموں کبھی اوروں کے لیے لہراؤں اس سے پہلے کہ ہوا میرا دیا لے جائے ہائے وہ آنکھ کہ جو حرف سجھاتی تھی کبھی اب سر کوئے غزل کون بلا لے جائے اس نے چاہا بھی تو کس ظرف سے چاہا مجھ کو جیسے سینے میں کوئی حرف ...

    مزید پڑھیے

    جس نے بنایا ہر آئینہ میں ہی تھا

    جس نے بنایا ہر آئینہ میں ہی تھا اور پھر اس میں اپنا تماشہ میں ہی تھا میرے قتل کا جشن منایا دنیا نے پھر دنیا نے دیکھا زندہ میں ہی تھا محل سرا کے سب چہروں کو جانتا ہوں جس سے گئے تھے دل تک راستہ میں ہی تھا دیکھ لیا زندانوں کی دیواروں نے ان سے قد میں بلند و بالا میں ہی تھا میں ہی ...

    مزید پڑھیے

    جس پل میں نے گھر کی عمارت خواب آثار بنائی تھی

    جس پل میں نے گھر کی عمارت خواب آثار بنائی تھی اس لمحے ویرانی نے بھی اک رفتار بنائی تھی ہم نے ہی مہر کو زہر سے بدلا ورنہ زمیں کی گردش نے دن غم خوار بنایا تھا اور شب دل دار بنائی تھی ٹوٹے دل پلکوں سے سنبھالیں اب ایسے فن کار کہاں ورنہ یہ دنیا جب اجڑی تھی سو سو بار بنائی تھی اپنی راہ ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑتے وقت تو کچھ اس میں غم گساری تھی

    بچھڑتے وقت تو کچھ اس میں غم گساری تھی وہ آنکھ پھر تو ہر اک کیفیت سے عاری تھی نہ جانے آج ہواؤں کی زد پہ کون آیا نہ جانے آج کی شب کس دیے کی باری تھی ذرا سی دیر کو چمکی تو تھی غنیم کی تیغ سواد شہر میں پھر روشنی ہماری تھی سفر سے لوٹے تو جیسے یقیں نہیں آتا کہ ساری عمر اسی شہر میں گزاری ...

    مزید پڑھیے

    وہ تمام رنگ انا کے تھے وہ امنگ ساری لہو سے تھی

    وہ تمام رنگ انا کے تھے وہ امنگ ساری لہو سے تھی وہ جو ربط ضبط گلوں سے تھا جو دعا سلام سبو سے تھی کوئی اور بات ہی کفر تھی کوئی اور ذکر ہی شرک تھا جو کسی سے وعدۂ دید تھا تو تمام شب ہی وضو سے تھی نہ کسی نے زخم کی داد دی نہ کسی نے چاک رفو کیا ملے ہم کو جتنے بھی بخیہ گر انہیں فکر اپنے رفو ...

    مزید پڑھیے

    کیسے کٹے قصیدہ گو حرف گروں کے درمیاں

    کیسے کٹے قصیدہ گو حرف گروں کے درمیاں کوئی تو سر کشیدہ ہو اتنے سروں کے درمیاں ایک تو شام رنگ رنگ پھر مرے خواب رنگ رنگ آگ سی ہے لگی ہوئی میرے پروں کے درمیاں ہاتھ لیے ہیں ہاتھ میں پھر بھی نظر ہے گھات میں ہم سفروں کی خیر ہو ہم سفروں کے درمیاں اب جو چلے تو یہ کھلا شہر کشادہ ہو گیا بڑھ ...

    مزید پڑھیے

    خوابوں کی اک بھیڑ لگی ہے جسم بچارا نیند میں ہے

    خوابوں کی اک بھیڑ لگی ہے جسم بچارا نیند میں ہے آدھا چہرہ نیند سے باہر آدھا چہرہ نیند میں ہے اک اجلاس تھا دیوانوں کا جس کی یہ روداد بنی! صدیوں سے بیمار ہے دنیا اور مسیحا نیند میں ہے آہن پیکر آوازوں پر ہم نے جنہیں تسخیر کیا سوتے سوتے چونک اٹھتے ہیں ایسا دھڑکا نیند میں ہے ہفت ...

    مزید پڑھیے

    سلامت آئے ہیں پھر اس کے کوچہ و در سے

    سلامت آئے ہیں پھر اس کے کوچہ و در سے نہ کوئی سنگ ہی آیا نہ پھول ہی برسے میں آگہی کے عجب منصبوں پہ فائز ہوں کہ آپ اپنا ہی منکر ہوں اپنے اندر سے نہ جانے کس کو یہ اعزاز فن ملا ہوگا تمام شہر میں بکھرے ہوئے ہیں پتھر سے اب اس کے موج و تلاطم میں ڈوبنے سے نہ ڈر گہر بھی تجھ کو ملے تھے اسی ...

    مزید پڑھیے

    شاید اب روداد ہنر میں ایسے باب لکھے جائیں گے

    شاید اب روداد ہنر میں ایسے باب لکھے جائیں گے سامنے دریا بہتا ہوگا لوگ سراب لکھے جائیں گے آج تو خیر اندھیری راتیں اور عذاب لکھے جائیں گے اک دن اپنی گلیوں میں بھی کچھ مہتاب لکھے جائیں گے پلکیں یوں ہی پھول چنیں گی آنکھیں یوں ہی رنگ بنیں گی دست دعا سے دیدۂ نم تک خواب ہی خواب لکھے ...

    مزید پڑھیے

    جبھی تو زخم بھی گہرا نہیں ہے

    جبھی تو زخم بھی گہرا نہیں ہے جو سنگ آیا ہے وہ پہلا نہیں ہے کبھی چہرے تھے آئینے نہیں تھے اب آئینہ ہے اور چہرہ نہیں ہے یہ اک شاعر کہ جس کو شوقؔ کہتے کبھی اک حال میں رہتا نہیں ہے کبھی ہر لفظ اعجاز مسیحا! کبھی یوں جیسے کچھ کہنا نہیں ہے کبھی آنکھیں سمندر سی سخی ہیں کبھی دریا میں اک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4