وہ تمام رنگ انا کے تھے وہ امنگ ساری لہو سے تھی
وہ تمام رنگ انا کے تھے وہ امنگ ساری لہو سے تھی
وہ جو ربط ضبط گلوں سے تھا جو دعا سلام سبو سے تھی
کوئی اور بات ہی کفر تھی کوئی اور ذکر ہی شرک تھا
جو کسی سے وعدۂ دید تھا تو تمام شب ہی وضو سے تھی
نہ کسی نے زخم کی داد دی نہ کسی نے چاک رفو کیا
ملے ہم کو جتنے بھی بخیہ گر انہیں فکر اپنے رفو سے تھی
ترے مطربوں کو خدا رکھے مگر اب کہاں تری بزم میں
کوئی سر جو میرے سخن میں تھا کوئی لے جو میرے لہو سے تھی
سر کارزار کھڑے ہو شوقؔ تو یوں ہی سینہ سپر رہو
کہ وہ لوگ کون سے بچ گئے جنہیں احتیاط عدو سے تھی