خوابوں کی اک بھیڑ لگی ہے جسم بچارا نیند میں ہے
خوابوں کی اک بھیڑ لگی ہے جسم بچارا نیند میں ہے
آدھا چہرہ نیند سے باہر آدھا چہرہ نیند میں ہے
اک اجلاس تھا دیوانوں کا جس کی یہ روداد بنی!
صدیوں سے بیمار ہے دنیا اور مسیحا نیند میں ہے
آہن پیکر آوازوں پر ہم نے جنہیں تسخیر کیا
سوتے سوتے چونک اٹھتے ہیں ایسا دھڑکا نیند میں ہے
ہفت افلاک نے دستک دے کر پوچھا تھا کس حال میں ہو
اک درویش نے بڑھ کے صدا دی یہ سیارہ نیند میں ہے
پل بھر میں شعلہ بھڑکے گا شہر کھنڈر ہو جائیں گے
جلتی شمعیں ہاتھ میں لے کر روح زمانہ نیند میں ہے
جاگ رہی ہے روح آہن خواب میں ہے انساں کا ضمیر
بیداری کی سو لہریں ہیں پھر بھی یہ دنیا نیند میں ہے
اٹھے گا اور لمحہ بھر میں حشر بپا ہو جائے گا
ہر لمحہ ایسا لگتا ہے کوئی فتنہ نیند میں ہے
شہر پناہ کی دیواروں پر اک دزدانہ آہٹ ہے
اور میں اس کو دیکھ رہا ہوں شہر تو سارا نیند میں ہے