Razi Akhtar Shauq

رضی اختر شوق

رضی اختر شوق کی غزل

    دو بادل آپس میں ملے تھے پھر ایسی برسات ہوئی

    دو بادل آپس میں ملے تھے پھر ایسی برسات ہوئی جسم نے جسم سے سرگوشی کی روح کی روح سے بات ہوئی دو دل تھے اور ایک سا موسم جس کی سخاوت ایسی تھی میں بھی اک برکھا میں نہایا وہ بھی ابر صفات ہوئی اس کے ہاتھ میں ہاتھ لیے اور دھوپ چھاؤں میں چلتا ہوا یوں لگتا تھا ساری دنیا جیسے میرے ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیا ہے جسے دیکھو وہی دلگیر لگے

    جانے کیا ہے جسے دیکھو وہی دلگیر لگے شہر کا شہر ہی اب معتقد میر لگے صبح آشفتہ مزاجوں کی پریشاں سخنی رات اک مار سیہ جیسے عناں گیر لگے اب تو جس آنکھ کو دیکھو وہی پتھرائی ہوئی اب تو جس چہرے کو آواز دو تصویر لگے جانے کس شہر طلسمات میں آ نکلا ہوں اپنے قدموں کی صدا حلقۂ زنجیر لگے یہی ...

    مزید پڑھیے

    انہی گلیوں میں اک ایسی گلی ہے

    انہی گلیوں میں اک ایسی گلی ہے جو میرے نام سے تنہا رہی ہے اب اس سے اور بھی شمعیں جلا لو سواد جاں میں اک مشعل جلی ہے ہمارے سر گئے سنگ حریفاں مے و مینا سے آفت ٹل گئی ہے میں بہر آزمائش بھی جلا ہوں کہ دیکھوں مجھ میں کتنی روشنی ہے الٰہی خیر ہو ان بستیوں کی پس دیوار اک پرچھائیں سی ...

    مزید پڑھیے

    سنگ ہیں ناوک دشنام ہیں رسوائی ہے

    سنگ ہیں ناوک دشنام ہیں رسوائی ہے یہ ترے شہر کا انداز پذیرائی ہے کتنا پھیلے گا یہ اک وصل کا لمحہ آخر کیا سمیٹو گے کہ اک عمر کی تنہائی ہے کچھ تو یاروں سے ملا سنگ ملامت ہی سہی کس نے اس شہر میں یوں داد ہنر پائی ہے ایک پتھر ادھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ...

    مزید پڑھیے

    چھیڑ کے ساز زر گری خلق خدا ہے رقص میں

    چھیڑ کے ساز زر گری خلق خدا ہے رقص میں یوں کہ تمام شہر ہی ڈوب چلا ہے رقص میں یہ جو نشہ ہے رقص کا اک مری ذات تک نہیں کوزہ بہ کوزہ گل بہ گل ساتھ خدا ہے رقص میں کوئی کسی سے کیا کہے کوئی کسی کی کیوں سنے! سب کی نظر ہے تال پر سب کی انا ہے رقص میں حسن کی اپنی اک نمو عشق کی اپنی ہاؤ ہو ایک ہوا ...

    مزید پڑھیے

    ہلاک کشمکش رائیگاں بہت سے ہیں

    ہلاک کشمکش رائیگاں بہت سے ہیں کہ زندگی ہے تو کار زیاں بہت سے ہیں میں اس ہوا میں بہت دیر روشنی دوں گا ابھی دیے سر محراب جاں بہت سے ہیں اسے بھی اپنے سنورنے کا کب خیال آیا جب اہل عشق کو کار جہاں بہت سے ہیں اس ایک بات پہ حیراں ہے وقت کا منصف کہ اس میں کون سا سچ ہے بیاں بہت سے ہیں عجب ...

    مزید پڑھیے

    کبھی خورشید ضیا بار ہوں میں

    کبھی خورشید ضیا بار ہوں میں کبھی سایہ پس دیوار ہوں میں یہ جو کچھ رنگ مری ذات میں ہیں کون سمجھے گا کہ دشوار ہوں میں نا رسیدہ ہے ابھی میری مہک شاخ نوخیز دگر انبار ہوں میں ہے کوئی ناز اٹھانے والا ایک ٹوٹا ہوا پندار ہوں میں لوگ یوں بچ کے گزر جاتے ہیں جیسے گرتی ہوئی دیوار ہوں ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو لکھنے کے لئے کیا نہیں لکھا میں نے

    یوں تو لکھنے کے لئے کیا نہیں لکھا میں نے پھر بھی جتنا تجھے چاہا نہیں لکھا میں نے یہ تو اک لہر میں کچھ رنگ جھلک آئے ہیں ابھی مجھ میں ہے جو دریا نہیں لکھا میں نے میرے ہر لفظ کی وحشت میں ہے اک عمر کا عشق یہ کوئی کھیل تماشا نہیں لکھا میں نے لکھنے والا میں عجب ہوں کہ اگر کوئی ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو ہیں تو ہر دور کو مہکائیں گے ہم لوگ

    خوشبو ہیں تو ہر دور کو مہکائیں گے ہم لوگ مٹی ہیں تو پل بھر میں بکھر جائیں گے ہم لوگ یہ شعلۂ بے مہر تو بس آنچ ہی دے گا ہاں اور ترے حسن سے کیا پائیں گے ہم لوگ کیا ہم سے بچو گے کہ جدھر جائیں گی نظریں اس آئنہ خانے میں جھلک جائیں گے ہم لوگ کہنا ہے یہ ناقدریٔ ارباب جہاں سے اک بار جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4