اب سفر ہو تو کوئی خواب نما لے جائے
اب سفر ہو تو کوئی خواب نما لے جائے کوئی آئے مجھے پلکوں پہ اٹھا لے جائے خود میں جھوموں کبھی اوروں کے لیے لہراؤں اس سے پہلے کہ ہوا میرا دیا لے جائے ہائے وہ آنکھ کہ جو حرف سجھاتی تھی کبھی اب سر کوئے غزل کون بلا لے جائے اس نے چاہا بھی تو کس ظرف سے چاہا مجھ کو جیسے سینے میں کوئی حرف ...