Razi Akhtar Shauq

رضی اختر شوق

رضی اختر شوق کی غزل

    پھر جو دیکھا دور تک اک خامشی پائی گئی

    پھر جو دیکھا دور تک اک خامشی پائی گئی میں تو سمجھا تھا کہ اک میری ہی گویائی گئی پھر وہی بادل کہ جی اڑنے کو چاہے جن کے ساتھ پھر وہی موسم کہ جب زنجیر پہنائی گئی پھر وہی طائر وہی ان کی غزل خوانی کے دن پھر وہی رت جس میں میری نغمہ پیرائی گئی کچھ تو ہے آخر جو سارا شہر تاریکی میں ہے یا ...

    مزید پڑھیے

    وہ شاخ گل کی طرح موسم طرب کی طرح

    وہ شاخ گل کی طرح موسم طرب کی طرح میں اپنے دشت میں تنہا چراغ شب کی طرح خیال و فکر کی سچائیاں بھی شامل ہیں مرے لہو میں مرے شجرۂ نسب کی طرح وہ اپنی خلوت جاں سے پکارتا ہے مجھے میں چاہتا ہوں اسے حرف زیر لب کی طرح خوشا یہ دور کہ وہ بھی ہے ساتھ ساتھ مرے مرے خیال کی صورت مری طلب کی ...

    مزید پڑھیے

    سفر کٹھن ہی سہی کیا عجب تھا ساتھ اس کا

    سفر کٹھن ہی سہی کیا عجب تھا ساتھ اس کا اندھیری رات میں میرا دیا تھا ہاتھ اس کا کچھ ایسی نیند سے جاگی کہ پھر نہ سوئی وہ آنکھ جلا کیا یوں ہی کاجل تمام رات اس کا تمام شب وہ ستاروں سے گفتگو اس کی تمام شب وہ سمندر سا التفات اس کا کبھی وہ ربط کہ آنکھوں میں جس طرح کاجل کبھی بچھڑ کے وہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ جنگ میں نے محاذ انا پہ ہاری ہے

    وہ جنگ میں نے محاذ انا پہ ہاری ہے لہو میں آج قیامت کی برف باری ہے مچا ہوا ہے بدن میں لہو کا واویلا کہیں سے کوئی کمک لاؤ زہر کاری ہے یہ دل ہے یا کسی آفت رسیدہ شہر کی رات کہ جتنا شور تھا اتنا سکوت طاری ہے صداقتیں ہیں عجب عشق کے قبیلہ کی! اسی سے جنگ بھی ٹھہری ہے جس سے یاری ہے وہ ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    دن کا ملال شام کی وحشت کہاں سے لائیں

    دن کا ملال شام کی وحشت کہاں سے لائیں زر زادگان شہر محبت کہاں سے لائیں صرف شمار دولت دنیا ہوئے جو لوگ وہ نامراد دل کی امارت کہاں سے لائیں سارا لہو تو صرف شمار و عدو ہوا شام فراق یار کی اجرت کہاں سے لائیں وہ جن کے دل کے ساتھ نہ دھڑکا ہو کوئی دل زندہ بھی ہیں تو اس کی شہادت کہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    یہ دور کم نظراں ہے تو پھر صلہ کیسا

    یہ دور کم نظراں ہے تو پھر صلہ کیسا یہ اپنا عہد ہے اس عہد کا گلا کیسا بہت دنوں سے نہیں مجھ کو اضطراب غزل رکا ہوا ہے خیالوں کا قافلہ کیسا کہاں یہ شام کہاں میرے آشنا چہرے سمٹ رہا ہے تصور میں فاصلہ کیسا کہاں یہ رات کہاں تیری بوئے پیراہن چلا تھا آج خیالوں کا سلسلہ کیسا کئی چراغ ...

    مزید پڑھیے

    کچھ لوگ سمجھنے ہی کو تیار نہیں تھے

    کچھ لوگ سمجھنے ہی کو تیار نہیں تھے ہم ورنہ کوئی عقدۂ دشوار نہیں تھے صد حیف کہ دیکھا ہے تجھے دھوپ سے بے کل افسوس کہ ہم سایۂ دیوار نہیں تھے ہم اتنے پریشاں تھے کہ حال دل سوزاں ان کو بھی سنایا کہ جو غم خوار نہیں تھے سچ یہ ہے کہ اک عمر گزاری سر مقتل ہم کون سے لمحے میں سر دار نہیں ...

    مزید پڑھیے

    وہ شاخ گل کہ جو آواز عندلیب بھی تھی

    وہ شاخ گل کہ جو آواز عندلیب بھی تھی ہوئی جو خشک تو میرے لیے صلیب بھی تھی دیار سنگ میں سر پھوڑتی پھری برسوں مری صدا کہ جو اس دور کی نقیب بھی تھی جو شمع دور تھی اس نے فقط دھواں ہی دیا اسی کی لو سے جلا ہوں جو کچھ قریب بھی تھی سرشت حسن عجب ہے کہ وصل کے ہنگام نگاہ یار میں کیفیت رقیب ...

    مزید پڑھیے

    تھا مری جست پہ دریا بڑی حیرانی میں

    تھا مری جست پہ دریا بڑی حیرانی میں کیوں مرا عکس بہت دیر رہا پانی میں شاید اس خاک سے خورشید کوئی اٹھے گا سو میں رہتا ہوں عناصر کی نگہبانی میں پاس آداب کہ یاں دیر نہیں لگتی ہے میر زنداں کو بدلتے ہوئے زندانی میں ان کی آواز کو خاطر میں نہ لانے والو تم نے دریاؤں کو دیکھا نہیں طغیانی ...

    مزید پڑھیے

    میں جب بھی قتل ہو کر دیکھتا ہوں

    میں جب بھی قتل ہو کر دیکھتا ہوں تو اپنوں ہی کا لشکر دیکھتا ہوں میں دنیا اپنے اندر دیکھتا ہوں یہیں پہ سارا منظر دیکھتا ہوں کبھی تصویر کر دیتا ہوں اس کو کبھی تصویر بن کر دیکھتا ہوں مجھے اس جرم میں اندھا کیا ہے کہ بینائی سے بڑھ کر دیکھتا ہوں نشاط دید تھا آنکھوں کا جانا کہ اب پہلے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4