رونق شہری کی غزل

    ہنر کو لمس معانی سے میں گلاب کروں

    ہنر کو لمس معانی سے میں گلاب کروں ہیں لفظ اپنے سبھی کس کا انتخاب کروں جو چپ رہوں تو تعلق پہ بوجھ بن جاؤں کہوں تو جرم کا جیسے میں ارتکاب کروں خراشیں ڈال کے چہرے پہ جا رہا ہے وقت پلٹ کے دیکھے وہ مجھ کو تو احتساب کروں تو جل کے بجھ گیا کیسے مرے لہو کے چراغ بیاض درد ترے نام انتساب ...

    مزید پڑھیے

    بلند ہمت سے آسماں میں شگاف ہم سے نہیں ہوا ہے

    بلند ہمت سے آسماں میں شگاف ہم سے نہیں ہوا ہے شکست کا بھی ابھی تلک اعتراف ہم سے نہیں ہوا ہے اے بندگان ہوس ابھی ہم سلامتی جاں کی چاہتے ہیں فقیر گوشہ نشیں ہیں پر اعتکاف ہم سے نہیں ہوا ہے لرزتے ہونٹوں سے پھر دعا کی قبولیت کے ہیں منتظر ہم یہ ایک سچ ہے قصور اپنا معاف ہم سے نہیں ہوا ...

    مزید پڑھیے

    نگاہوں میں سدا گیلے بدن کا ذائقہ رکھنا

    نگاہوں میں سدا گیلے بدن کا ذائقہ رکھنا قیامت خیز بارش میں نہ دروازہ کھلا رکھنا تھکن واجب ہے اتنی ٹوٹتے لمحوں کے سائے میں بلندی پر بہت مشکل ہے اپنا مرتبہ رکھنا ہوائے دشت شوریدہ شجر کو برہنہ کر دے تو ان بکھرے ہوئے پتوں پہ اپنا نقش پا رکھنا وہ موسم جب درختوں کو نئی پوشاک مل ...

    مزید پڑھیے

    خواہش جب ابھری تو منظر ڈوب گیا

    خواہش جب ابھری تو منظر ڈوب گیا یعنی پھر میں اپنے اندر ڈوب گیا سہمی سہمی آنکھوں میں ویرانی ہے یعنی میں پانی کے باہر ڈوب گیا صبح ہوئی تو چرچا تھا یہ لوگوں میں چاند اندھیرے میں ہی چھت پر ڈوب گیا میں اس کی آنکھوں میں تہمت رکھ آیا جسم کی تہہ میں شک کا خنجر ڈوب گیا فاتح اور مفتوح ...

    مزید پڑھیے

    مضطرب لہروں سے پہلے آشنا ہونے دیا

    مضطرب لہروں سے پہلے آشنا ہونے دیا پھر کہیں میں نے اسے ساحل زدہ ہونے دیا اڑ رہا ہے آندھیوں میں برگ شاخ سبز بھی کس نے میرے دل کے موسم کو ہرا ہونے دیا سنگ زادوں میں بھی رہ کر نازکی باقی رہی میں نے اس کی شخصیت کو آئنہ ہونے دیا میرے پیچھے تھی کسی اندھے مقلد کی طرح اپنی پرچھائیں کو ...

    مزید پڑھیے

    سویرے گھر چلا جاؤں تو بستر کاٹ سکتا ہے

    سویرے گھر چلا جاؤں تو بستر کاٹ سکتا ہے بتاؤں میں تمہیں کیسے مجھے گھر کاٹ سکتا ہے تحیر پیش کرنا اس کے مسلک میں نہیں شامل بندھی زنجیر کو خود بھی قلندر کاٹ سکتا ہے ابھی یہ منکشف اس پر نہیں یہ میرے حق میں ہے مجھے وہ میرے ہی جملے سے بہتر کاٹ سکتا ہے نہ کر پانی سے ہی پیوند کاری کشتیٔ ...

    مزید پڑھیے

    بنیاد اختلاف پہ زندہ رہے دونوں

    بنیاد اختلاف پہ زندہ رہے دونوں اچھا ہوا کہ مدتوں تنہا رہے دونوں دیوار انا ہو گئی مضبوط غلط ہے سچ یہ ہے کہ اندر سے شکستہ رہے دونوں دونوں نے ہی دھوکے میں کسی کو نہیں رکھا اور سامنے ہو کر پس چہرہ رہے دونوں اس سود و زیاں سے بھی الگ تھا کوئی احساس اور اس میں ہی محفوظ زیادہ رہے ...

    مزید پڑھیے

    ضعف شب نے ایک آسودہ تھکن زندہ کیا

    ضعف شب نے ایک آسودہ تھکن زندہ کیا جب ہوئی مردہ ہوس اس نے بدن زندہ کیا سامنے کی چیز سے ٹھوکر لگی تھی ایک دن روند کر قدموں سے آثار کہن زندہ کیا کرنا تھا معتوب ہوتی ساعتوں کو سرخ رو قہقہے گم کرنے کا اس نے چلن زندہ کیا غم چمکتا تھا اندھیرے میں بہ رنگ آفتاب رخ پہ ظلمت ڈال کر اس نے گہن ...

    مزید پڑھیے

    تمام عمر کا حاصل ہے بے بصر ہونا

    تمام عمر کا حاصل ہے بے بصر ہونا زیادہ اس سے بھی مشکل ہے باخبر ہونا اگر ہوا کہیں بے فیض موسموں کا نزول ہرے درختوں کا ممکن ہے بے ثمر ہونا غموں کی دھوپ سے بچنا محال ہے لیکن بہت ضروری ہے چھوٹا سا ایک گھر ہونا خود اپنے گھر میں ضرورت کی شے ہوں کیا کم ہے نہیں پسند مجھے بھی ادھر ادھر ...

    مزید پڑھیے

    کوئی گزرا ہے اس پہ سانحہ انکار کرتا تھا

    کوئی گزرا ہے اس پہ سانحہ انکار کرتا تھا درخت زیست کا پتا ہرا انکار کرتا تھا سمٹتے دائرے میں قید ہونا اس کی قسمت تھی بہ نام وسعت صحرا کھلا انکار کرتا تھا عجب آندھی کا جھونکا تھا بچھا کر بھی صف ماتم درون خیمۂ آب و ہوا انکار کرتا تھا زمیں ہر پاؤں کی مخصوص لمحے میں کھسکتی تھی جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2