نگاہوں میں سدا گیلے بدن کا ذائقہ رکھنا

نگاہوں میں سدا گیلے بدن کا ذائقہ رکھنا
قیامت خیز بارش میں نہ دروازہ کھلا رکھنا


تھکن واجب ہے اتنی ٹوٹتے لمحوں کے سائے میں
بلندی پر بہت مشکل ہے اپنا مرتبہ رکھنا


ہوائے دشت شوریدہ شجر کو برہنہ کر دے
تو ان بکھرے ہوئے پتوں پہ اپنا نقش پا رکھنا


وہ موسم جب درختوں کو نئی پوشاک مل جائے
ہمارے واسطے آنسو کوئی کھویا ہوا رکھنا


ہوا کی شہہ پہ رونقؔ کالی بدلیاں بھاگیں
نحوست ہے کھلی چھت پر بھی اب سوکھا گھڑا رکھنا