ضعف شب نے ایک آسودہ تھکن زندہ کیا

ضعف شب نے ایک آسودہ تھکن زندہ کیا
جب ہوئی مردہ ہوس اس نے بدن زندہ کیا


سامنے کی چیز سے ٹھوکر لگی تھی ایک دن
روند کر قدموں سے آثار کہن زندہ کیا


کرنا تھا معتوب ہوتی ساعتوں کو سرخ رو
قہقہے گم کرنے کا اس نے چلن زندہ کیا


غم چمکتا تھا اندھیرے میں بہ رنگ آفتاب
رخ پہ ظلمت ڈال کر اس نے گہن زندہ کیا


اپنے خوں کے رنگ سے دریافت ہونا تھا مجھے
کاٹ کر دست ہنر میں نے یہ فن زندہ کیا


بر سبیل تذکرہ جب مر گیا عرض ہنر
میں نے رونقؔ پھر سے موضوع سخن زندہ کیا