کوئی گزرا ہے اس پہ سانحہ انکار کرتا تھا
کوئی گزرا ہے اس پہ سانحہ انکار کرتا تھا
درخت زیست کا پتا ہرا انکار کرتا تھا
سمٹتے دائرے میں قید ہونا اس کی قسمت تھی
بہ نام وسعت صحرا کھلا انکار کرتا تھا
عجب آندھی کا جھونکا تھا بچھا کر بھی صف ماتم
درون خیمۂ آب و ہوا انکار کرتا تھا
زمیں ہر پاؤں کی مخصوص لمحے میں کھسکتی تھی
جو تھا اس کا شریک ماجرا انکار کرتا تھا
عجب تھا منکر شب جگنوؤں کو ٹانک لینے پر
غروب نور سے باقاعدہ انکار کرتا تھا