لوگ پتھر کے تھے فریاد کہاں تک کرتے
لوگ پتھر کے تھے فریاد کہاں تک کرتے دل کے ویرانے ہم آباد کہاں تک کرتے آخرش کر لیا مٹی کے حرم میں قیام خود کو ہم خانماں برباد کہاں تک کرتے ایک زندان محبت میں ہوئے ہم بھی اسیر خود کو ہر قید سے آزاد کہاں تک کرتے خود پہ موقوف کیا اس کا فقط درس وصال ہر نئے درس کو ہم یاد کہاں تک ...