راشد طراز کی غزل

    لوگ پتھر کے تھے فریاد کہاں تک کرتے

    لوگ پتھر کے تھے فریاد کہاں تک کرتے دل کے ویرانے ہم آباد کہاں تک کرتے آخرش کر لیا مٹی کے حرم میں قیام خود کو ہم خانماں برباد کہاں تک کرتے ایک زندان محبت میں ہوئے ہم بھی اسیر خود کو ہر قید سے آزاد کہاں تک کرتے خود پہ موقوف کیا اس کا فقط درس وصال ہر نئے درس کو ہم یاد کہاں تک ...

    مزید پڑھیے

    یقیں سے پھوٹتی ہے یا گماں سے آتی ہے

    یقیں سے پھوٹتی ہے یا گماں سے آتی ہے یہ دل میں روشنی آخر کہاں سے آتی ہے مکاں جلے ہیں مکینوں کے قتل عام کے بعد مہک لہو کی امنڈتے دھواں سے آتی ہے پیام لاتی ہے اوج فراق کا مجھ تک ہوا جو مل کے مرے مہرباں سے آتی ہے قرار دیتی ہے وہ آئینے کو منزل دید جو گرد اڑ کے ابھی کارواں سے آتی ...

    مزید پڑھیے

    کن سرابوں کا مقدر ہوئیں آنکھیں میری

    کن سرابوں کا مقدر ہوئیں آنکھیں میری جستجو کر کے جو پتھر ہوئیں آنکھیں میری کچھ نہ تھم پایا ہے اس سیل رواں کے آگے کیسے اشکوں کا سمندر ہوئیں آنکھیں میری خون رونے کے سوا کچھ نہیں باقی ان میں کیسے آسودۂ خنجر ہوئیں آنکھیں میری کبھی انوار کو مل پاتا نہیں ان میں فروغ کیا زمیں چھوڑ کے ...

    مزید پڑھیے

    روح کے زخم کو لازم ہے نہاں ہو جانا

    روح کے زخم کو لازم ہے نہاں ہو جانا غیر ممکن ہے اس اک شے کا بیاں ہو جانا خون دے کر بھی انہیں کیسے بچایا جاتا جن چراغوں کا مقدر تھا دھواں ہو جانا دیکھتا رہ گیا ویرانۂ ہستی میں کوئی اپنے زخموں کا بہاراں کی زباں ہو جانا چلنا پڑتا ہے ہر اک راہ میں اک عمر طرازؔ اتنا آساں نہیں منزل کا ...

    مزید پڑھیے

    رات آخر ہو ستم پیشوں پہ ایسا بھی نہیں

    رات آخر ہو ستم پیشوں پہ ایسا بھی نہیں وقت رک جائے کہیں آ کے یہ ہوتا بھی نہیں اپنے ہونے کی سزا کس کو ملا کرتی ہے کس کو یہ زخم دکھاؤں جو ہویدا بھی نہیں منتظر آئینہ خانے ہیں نہ جانے کس کے شہر تمثال میں اب تو کوئی چہرہ بھی نہیں تجھ سے منسوب تھے سب جور سہے ہم نے مگر پاس ناموس محبت تھا ...

    مزید پڑھیے

    کسی بھی حال میں یہ حق کشی گوارہ نہیں

    کسی بھی حال میں یہ حق کشی گوارہ نہیں لہولہان ہمیں زندگی گوارہ نہیں وجود کے لئے لڑتے رہیں گے آخر تک صلیب پر بھی ہمیں خامشی گوارہ نہیں انہیں کے نام اندھیرے فلک سے آتے ہیں جنہیں ہماری کبھی روشنی گوارہ نہیں خدا کا اول و آخر ہے حق عبادت پر زمین والے تری بندگی گوارہ نہیں ہر ایک ظلم ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہونے کا کوئی ساز نہیں دیتی ہے

    اپنے ہونے کا کوئی ساز نہیں دیتی ہے اب تو تنہائی بھی آواز نہیں دیتی ہے جانے یہ کون سی منزل ہے شناسائی کی ذات مطلق کوئی اعجاز نہیں دیتی ہے اپنی افتاد طبیعت کا گلا کیا ہو کہ جو خواہشوں کو پر پرواز نہیں دیتی ہے ساعت خوبی گزر جاتی ہے آتے جاتے پر یہ تحریک تگ و تاز نہیں دیتی ہے جانے ...

    مزید پڑھیے

    روشنی بن کے اندھیرے پہ اثر ہم نے کیا

    روشنی بن کے اندھیرے پہ اثر ہم نے کیا دشت تنہائی سے کیا خوب گزر ہم نے کیا بندش ہجر کو توڑا نہیں تو نے آ کر یاد کیا تجھ کو نہیں شام و سحر ہم نے کیا اک بیاباں بھی ملا منتظر نور ازل دل کی ویرانی کو جب پیش نظر ہم نے کیا اور کچھ ہو نہ سکا صورت درماں لیکن اپنا دامن تو سر دیدۂ تر ہم نے ...

    مزید پڑھیے

    پاسباں بن کے ارادہ مرے آگے ہوگا

    پاسباں بن کے ارادہ مرے آگے ہوگا ہوگا پایاب جو دریا مرے آگے ہوگا زیر ہو جائے گی ہر تیرہ شبی آخر کار تیری صورت کا اجالا مرے آگے ہوگا اب تو میں آگ سے کھیلوں گا چراغاں کر کے شہر تاریک یہ سارا مرے آگے ہوگا میں مگر جاؤں گا رکھے ہوئے آنکھوں پر ہاتھ لاکھ راہوں میں تماشا مرے آگے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی یوں بھی کرو شہر گماں تک لے چلو مجھ کو

    کبھی یوں بھی کرو شہر گماں تک لے چلو مجھ کو جہاں تک روشنی ہے تم وہاں تک لے چلو مجھ کو بھٹکتا جا رہا ہوں راہ رو ملتا نہیں کوئی غبار راہ میرے کارواں تک لے چلو مجھ کو غم آوارگی سے میں شکستہ ہوتا جاتا ہوں پرندو تم ہی اپنے آشیاں تک لے چلو مجھ کو خموشی جھیل لی میں نے رہائی کی گھڑی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3