روح کے زخم کو لازم ہے نہاں ہو جانا

روح کے زخم کو لازم ہے نہاں ہو جانا
غیر ممکن ہے اس اک شے کا بیاں ہو جانا


خون دے کر بھی انہیں کیسے بچایا جاتا
جن چراغوں کا مقدر تھا دھواں ہو جانا


دیکھتا رہ گیا ویرانۂ ہستی میں کوئی
اپنے زخموں کا بہاراں کی زباں ہو جانا


چلنا پڑتا ہے ہر اک راہ میں اک عمر طرازؔ
اتنا آساں نہیں منزل کا نشاں ہو جانا