Rashid Mufti

راشد مفتی

  • 1945

راشد مفتی کی غزل

    بھلے ہی مرا حوصلہ پست ہوتا

    بھلے ہی مرا حوصلہ پست ہوتا مقابل تو کوئی زبردست ہوتا گزارا تو پہلے بھی کرتا ہی تھا میں مزا جب تھا بالکل تہی دست ہوتا تری دستگیری کہاں اور کہاں میں ترا آسرا ہی سر دست ہوتا میں پھوٹا تھا جس شاخ پر بن کے کونپل اسی شاخ میں کاش پیوست ہوتا گلاس ایک تھا پینے والے کئی تھے تو کیا منتقل ...

    مزید پڑھیے

    دنیا میں ہے یوں تو کون بے غم

    دنیا میں ہے یوں تو کون بے غم پوچھے کوئی کیوں اداس ہیں ہم کیا شہر کے باسیوں کو معلوم کرتے ہیں غزال کس طرح رم کرتے رہے عمر بھر وضاحت پر رہ گئی بات پھر بھی مبہم شکوہ تو ہے دوسروں سے لیکن ناراض ہیں اپنے آپ سے ہم ہر سانس کے ساتھ کر رہے ہیں گزری ہوئی زندگی کا ماتم اوروں کی نظر میں ...

    مزید پڑھیے

    کچھ یوں بھی مجھے راس ہیں تنہائیاں اپنی

    کچھ یوں بھی مجھے راس ہیں تنہائیاں اپنی رہتی ہیں جلو میں مرے پرچھائیاں اپنی مشہور یہی لوگ کبھی اہل نظر تھے! اب ڈھونڈتے پھرتے ہیں جو بینائیاں اپنی اپنا ہی سہارا تھا سر معرکۂ ذات کس کام کی تھیں ورنہ صف آرائیاں اپنی میں اور بھرے شہر میں اس طرح اکیلا! وہ سونپ گیا ہے مجھے تنہائیاں ...

    مزید پڑھیے

    لوٹا جانے والوں نے

    لوٹا جانے والوں نے یاد نہ آنے والوں نے کس پستی میں گھسیٹ لیا ہاتھ بڑھانے والوں نے کر ہی دیا دیوار کو در سر ٹکرانے والوں نے سچ بھی مجھے کہنے نہ دیا زہر پلانے والوں نے کیا کیا ڈھونڈ نکالا ہے خود کھو جانے والوں نے مجھ کو چھین لیا مجھ سے آنے جانے والوں نے پیٹھ میں خنجر گھونپ ...

    مزید پڑھیے

    لوگ کہ جن کو تھا بہت زعم وجود شہر میں

    لوگ کہ جن کو تھا بہت زعم وجود شہر میں پھیل کے رہ گئے فقط صورت دود شہر میں ہم سے جہاں انیک تھے بد تھے وہی کہ نیک تھے سچ ہی تو ہے کہ ایک تھے بود و نبود شہر میں تنگیٔ رزق کا گلا جن کو یہاں سدا رہا! توڑ کے دیکھتے ذرا اپنی حدود شہر میں اتنے برس کے بعد بھی لوگ ہیں ہم سے اجنبی جانے ہوا تھا ...

    مزید پڑھیے

    شہر غفلت کے مکیں ویسے تو کب جاگتے ہیں

    شہر غفلت کے مکیں ویسے تو کب جاگتے ہیں ایک اندیشۂ شب خوں ہے کہ سب جاگتے ہیں شاید اب ختم ہوا چاہتا ہے عہد سکوت حرف اعجاز کی تاثیر سے لب جاگتے ہیں راہ گم کردۂ منزل ہیں کہ منزل کا سراغ کچھ ستارے جو سر قریۂ شب جاگتے ہیں عکس ان آنکھوں سے وہ محو ہوئے جو اب تک خواب کی مثل پس چشم طلب ...

    مزید پڑھیے

    محفل میں تو بس وہ سج رہا ہے

    محفل میں تو بس وہ سج رہا ہے اپنے کو جو کچھ سمجھ رہا ہے دستک ترے ہاتھ کی ہے لیکن دروازہ ہوا سے بج رہا ہے نکلا تھا میں گھر سے منہ اندھیرے اب رات کا ایک بج رہا ہے پھر خود کو دکھائی دے گیا ہوں پھر سوچ کا تار الجھ رہا ہے اس دور کا ہے وہی پیمبر جو اپنے حقوق تج رہا ہے کیا ہو جو کہیں برس ...

    مزید پڑھیے

    اب کیا گلہ کہ روح کو کھلنے نہیں دیا

    اب کیا گلہ کہ روح کو کھلنے نہیں دیا اس نے تو مجھ کو خاک میں ملنے نہیں دیا کوشش ہوا نے رات بھر اپنی سی کی مگر زنجیر در کو میں نے ہی ہلنے نہیں دیا اک بار اس سے بات تو میں کر کے دیکھ لوں اتنا بھی آسرا مجھے دل نے نہیں دیا کرتا وہ اپنے آپ کو کیا مجھ پہ منکشف اس نے تو مجھ سے بھی مجھے ملنے ...

    مزید پڑھیے

    دل جس سے کانپتا ہے وہ ساعت بھی آئے گی

    دل جس سے کانپتا ہے وہ ساعت بھی آئے گی وہ آئے گا تو کوئی مصیبت بھی آئے گی میں آج تیری راہ کا پتھر سہی مگر کل تجھ کو پیش میری ضرورت بھی آئے گی جھیلے ہیں اپنی جان پہ ہم نے وہ حادثے دل مانتا نہیں کہ قیامت بھی آئے گی اس کی کشیدگی کا سبب کچھ بھی ہو مگر مجھ کو گماں نہ تھا کہ یہ نوبت بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ سے چھو کر یہ نیلا آسماں بھی دیکھتے

    ہاتھ سے چھو کر یہ نیلا آسماں بھی دیکھتے جو افق کے پار ہیں وہ بستیاں بھی دیکھتے مطمئن ہیں جو بہت کھلتے دریچے دیکھ کر وہ کسی دن بند ہوتی کھڑکیاں بھی دیکھتے اس خرابے میں بھی ممکن ہے کوئی آباد ہو اک نظر اندر سے یہ اجڑا مکاں بھی دیکھتے آج جس تن پر نظر آتی ہے زخموں کی قبا کل اسی تن پر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2