لوگ کہ جن کو تھا بہت زعم وجود شہر میں

لوگ کہ جن کو تھا بہت زعم وجود شہر میں
پھیل کے رہ گئے فقط صورت دود شہر میں


ہم سے جہاں انیک تھے بد تھے وہی کہ نیک تھے
سچ ہی تو ہے کہ ایک تھے بود و نبود شہر میں


تنگیٔ رزق کا گلا جن کو یہاں سدا رہا!
توڑ کے دیکھتے ذرا اپنی حدود شہر میں


اتنے برس کے بعد بھی لوگ ہیں ہم سے اجنبی
جانے ہوا تھا کس گھڑی اپنا ورود شہر میں


راہ عمل پہ گھیر کے خود کو ہی لاؤ پھیر کے
وہ تو گیا بکھیر کے رنگ جمود شہر میں


مجھ کو چلو نہ مانتا نام تو کوئی جانتا
میں بھی جو یار چھانتا خاک نمود شہر میں


مجھ سے وہ کیا بچھڑ گیا اور بھی میں اجڑ گیا
چھوڑ کے مجھ کو بڑھ گیا میرا وجود شہر میں


مجھ سے زمین زیر پا اس نے جو چھین لی تو کیا
خم تو نہیں ہوا مرا خط عمود شہر میں