Rashid Mufti

راشد مفتی

  • 1945

راشد مفتی کی غزل

    وہ جو خود اپنے بدن کو سائباں کرتا نہیں

    وہ جو خود اپنے بدن کو سائباں کرتا نہیں کیوں نہ پچھتائے کہ سایہ آسماں کرتا نہیں جانے کیوں اک دوسرے کے لوگ ہیں شکوہ گزار کون کس کے حوصلوں کا امتحاں کرتا نہیں کچھ نہیں کھلتا کہ آخر کیا کہانی ہے جسے لوگ سننا چاہتے ہیں میں بیاں کرتا نہیں اس سے ملتے وقت تجھ کو ساتھ رکھوں کس طرح میں ...

    مزید پڑھیے

    غنیمت ہے ہنس کر اگر بات کی

    غنیمت ہے ہنس کر اگر بات کی یہاں کس نے کس کی مدارات کی گھٹن کیوں نہ محسوس ہو شہر میں ہوا چل پڑی ہے مضافات کی نظر اس کو میں آتا ہوں ٹھیک ٹھاک اسے کیا خبر میرے حالات کی ہمیں آج حق سے بھی محروم ہیں ہمیں پر تھی بارش مراعات کی مقدر تو میرا سنوارو گے کیا! لکیریں مٹا دو مرے ہات کی زیاں ...

    مزید پڑھیے

    اور ذرا کج مری کلاہ تو ہوتی

    اور ذرا کج مری کلاہ تو ہوتی ذات سے باہر کہیں پناہ تو ہوتی مجھ کو اگر زندگی نے کچھ نہ دیا تھا میرے شب و روز کی گواہ تو ہوتی کھو گئی منزل تو خیر گرد سفر میں جس پہ میں چلتا رہا وہ راہ تو ہوتی خوف زدہ کاش کوئی مجھ کو بھی رکھتا میرے لیے بھی کہیں پناہ تو ہوتی لمحۂ موجود دسترس میں نہ ...

    مزید پڑھیے

    فرق کوئی نہیں مگر ہے بھی!

    فرق کوئی نہیں مگر ہے بھی! تلخ دونوں ہیں زہر بھی مے بھی شور اتنا ہے جس کے ہونے کا کون جانے کہ وہ کہیں ہے بھی سینۂ آدمی کی بات ہے اور یوں تو چھلنی ہے سینۂ نے بھی یوں بھی چپ ہوں ترے بدلنے پر پہلے جیسی نہیں کوئی شے بھی میرے بارے میں سوچنے والے میرے بارے میں کچھ کریں طے بھی دے رہے ...

    مزید پڑھیے

    تیرے ہاتھوں جو سرافراز ہوئے

    تیرے ہاتھوں جو سرافراز ہوئے ہم سے کس بات میں ممتاز ہوئے کیا وہ دستک سے نہ کھل سکتے تھے ہم پہ ٹھوکر سے جو در باز ہوئے شام تک ان کا نشاں بھی نہ رہا صبح جو محو تگ و تاز ہوئے کیا بنیں گے وہ کسی کے ہم راز! خود جو اپنے لیے اک راز ہوئے کیا تمسخر ہے کہ راشدؔ ہم بھی کچھ نہ ہونے سے سخن ساز ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے لمس سے بھڑکا بھی ہوں میں

    ہوا کے لمس سے بھڑکا بھی ہوں میں شرارہ ہی نہیں شعلہ بھی ہوں میں وہ جن کی آنکھ کا تارہ بھی ہوں میں ان ہی کے پاؤں کا چھالا بھی ہوں میں اکہرا ہے مرا پیراہن ذات برا ہوں یا بھلا جیسا بھی ہوں میں ہوا نے چھین لی ہے میری خوشبو مثال گل اگر مہکا بھی ہوں میں مرے رستے میں حائل ہے جو ...

    مزید پڑھیے

    لاکھ مجھے دوش پہ سر چاہیئے

    لاکھ مجھے دوش پہ سر چاہیئے سیل بلا کو مرا گھر چاہیئے زاد سفر سے کہیں کٹتی ہے راہ دل میں فقط شوق سفر چاہیئے خیر ہو تابانیٔ خورشید کی شب کے دلاروں کو سحر چاہیئے اب یہ طلب ہے کہ ہوس چھوڑیئے پیڑ نہیں مجھ کو ثمر چاہیئے مانگتے ہیں وہ بھی زمیں سے مراد سوئے فلک جن کی نظر چاہیئے اب ...

    مزید پڑھیے

    جو قرض مجھ پہ ہے وہ بوجھ اتارتا جاؤں

    جو قرض مجھ پہ ہے وہ بوجھ اتارتا جاؤں کوئی سنے نہ سنے میں پکارتا جاؤں مٹا چکا ہوں جسے اپنے صفحۂ دل سے غزل غزل وہی چہرہ ابھارتا جاؤں نہ جانے میرے تعاقب میں کون کون آئے میں اپنے نقش کف پا ابھارتا جاؤں جو میرے پاس ہے اپنے لیے بچا رکھوں جو میرے پاس نہیں تجھ پہ وارتا جاؤں قدم قدم پہ ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی جیت کا صدمہ کسی کی مات کا بوجھ

    کسی کی جیت کا صدمہ کسی کی مات کا بوجھ کہاں تک اور اٹھائیں تعلقات کا بوجھ انا کا بوجھ بھی آیا اسی کے حصے میں بہت ہے جس کے اٹھانے کو اپنی ذات کا بوجھ جھٹک دیا ہے کبھی سر سے بار ہستی بھی اٹھا لیا ہے کبھی سر پہ کائنات کا بوجھ ابھی سے آج کے دن کا حساب کیا معنی ابھی تو ذہن پہ باقی ہے کل ...

    مزید پڑھیے

    کس شے کا سراغ دے رہا ہوں

    کس شے کا سراغ دے رہا ہوں اندھے کو چراغ دے رہا ہوں دیتے نہیں لوگ دل بھی جس کو میں اس کو دماغ دے رہا ہوں بخشش میں ملی تھیں چند کلیاں تاوان میں باغ دے رہا ہوں تو نے دیئے تھے جسم کو زخم میں روح کو داغ دے رہا ہوں زخموں سے لہو ٹپک رہا ہے قاتل کو سراغ دے رہا ہوں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2