کچھ یوں بھی مجھے راس ہیں تنہائیاں اپنی
کچھ یوں بھی مجھے راس ہیں تنہائیاں اپنی
رہتی ہیں جلو میں مرے پرچھائیاں اپنی
مشہور یہی لوگ کبھی اہل نظر تھے!
اب ڈھونڈتے پھرتے ہیں جو بینائیاں اپنی
اپنا ہی سہارا تھا سر معرکۂ ذات
کس کام کی تھیں ورنہ صف آرائیاں اپنی
میں اور بھرے شہر میں اس طرح اکیلا!
وہ سونپ گیا ہے مجھے تنہائیاں اپنی
لو تم نے چراغوں کی بڑھائی تو ہے راشدؔ
گھیرے میں نہ لے لیں تمہیں پرچھائیاں اپنی