محفل میں تو بس وہ سج رہا ہے
محفل میں تو بس وہ سج رہا ہے
اپنے کو جو کچھ سمجھ رہا ہے
دستک ترے ہاتھ کی ہے لیکن
دروازہ ہوا سے بج رہا ہے
نکلا تھا میں گھر سے منہ اندھیرے
اب رات کا ایک بج رہا ہے
پھر خود کو دکھائی دے گیا ہوں
پھر سوچ کا تار الجھ رہا ہے
اس دور کا ہے وہی پیمبر
جو اپنے حقوق تج رہا ہے
کیا ہو جو کہیں برس پڑے وہ
اب تک جو فقط گرج رہا ہے
اتنا بھی نہیں ہوں میں تو راشدؔ
جتنا مجھے وہ سمجھ رہا ہے