رشید حسرت کی غزل

    پھر اس کے بعد تو تنہائیوں کے بیچ میں ہیں

    پھر اس کے بعد تو تنہائیوں کے بیچ میں ہیں کہ غم کی ٹوٹتی انگڑائیوں کے بیچ میں ہیں یہ شادیانے فقط سر خوشی کا نام نہیں کسی کی چیخیں بھی شہنائیوں کے بیچ میں ہیں ہمیں تو خوف سا لاحق ہے ٹوٹ جانے کا تعلقات جو گہرائیوں کے بیچ میں ہیں یہ جائیداد یہ مال و متاع و میراثیں فساد انہی پہ مرے ...

    مزید پڑھیے

    مجھے تجھ سے بچھڑ جانے کا دکھ ہے

    مجھے تجھ سے بچھڑ جانے کا دکھ ہے کلی کے کھل کے مرجھانے کا دکھ ہے مجھے کل تو نے ٹھہرایا تھا لیکن جہاں کو آج ٹھکرانے کا دکھ ہے وفا پانے کی دل میں آرزو تھی تماشا بن کے رہ جانے کا دکھ ہے تجھے سو بار سمجھایا تھا میں نے مگر اب تیرے کمہلانے کا دکھ ہے جگاتا ہے مجھے شب بھر ترا غم خوشی ...

    مزید پڑھیے

    نہیں کہ بعد ترے دوسرا نہیں آیا

    نہیں کہ بعد ترے دوسرا نہیں آیا جو زیست کو تھا میسر مزہ نہیں آیا بچھڑ گیا ہے تو ایسے پلٹ کے آیا نہیں وگرنہ راہ میں طوفان کیا نہیں آیا بس ایک رات قیامت سی مجھ کو تھی درپیش پھر اس کے بعد کوئی مرحلہ نہیں آیا میں اپنی آدھی محبت پہ اب ہوں گریہ کناں مجھے تو ڈھنگ کوئی میرؔ سا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بیتے لمحے کل کی باتیں یاد آئیں

    بیتے لمحے کل کی باتیں یاد آئیں وہ رنگوں کی سب برساتیں یاد آئیں دن دیکھا تو چہرہ تیرا یاد آیا رات کے دیکھے زلف کی راتیں یاد آئیں بیٹا ایم اے کر کے گھر میں بیٹھ گیا اپنے وقت کی چار جماعتیں یاد آئیں جلتی دھوپ میں ننگے پاؤں چلنے پر ٹھنڈے لہجے کی سوغاتیں یاد آئیں آج کی جیت پہ دل ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی باپ مرا کیا زمین چھوڑ گیا

    ذرا سی باپ مرا کیا زمین چھوڑ گیا ہیں سات بچے تو ازواج تین چھوڑ گیا مجھے ملے تو میں اس نوجواں کو قتل کروں جو بد زباں کے لئے نازنین چھوڑ گیا رہا جو مفت یہ حجرہ دیا سجا کے اسے مکاں کشادہ تھا لیکن مکین چھوڑ گیا پلایا دودھ بھی اور ناز بھی اٹھائے مگر کمال سانپ تھا جو آستین چھوڑ ...

    مزید پڑھیے

    وہ شور ہے کہ یہاں کچھ سنائی دیتا نہیں

    وہ شور ہے کہ یہاں کچھ سنائی دیتا نہیں تلاش جس کی ہے وہ کیوں دکھائی دیتا نہیں سلگ رہا ہوں میں برسات کی بہاروں میں یہ میرا ظرف کہ پھر بھی دہائی دیتا نہیں یتیم پالتی ہے بہن کس مشقت سے ہے دکھ کی بات کہ امداد بھائی دیتا نہیں وہ در فرار کے مجھ پر کھلے تو رکھتا ہے وہ زلف قید سے لیکن ...

    مزید پڑھیے

    مہنگائی کا اب آیا ہے طوفان یقیناً

    مہنگائی کا اب آیا ہے طوفان یقیناً توڑے ہیں حکمرانوں نے پیمان یقیناً مزدور کو پابند کیا گھر پہ بٹھایا دو وقت کی اب اس کو نہیں نان یقیناً انسان کی توہین کبھی اتنی نہیں تھی روٹی ہے گراں خون ہے ارزان یقیناً جس حکم پہ دہقان کی محنت کا صلہ ضبط تحقیر کے لائق ہے وہ فرمان یقیناً جس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2