ذرا سی باپ مرا کیا زمین چھوڑ گیا
ذرا سی باپ مرا کیا زمین چھوڑ گیا
ہیں سات بچے تو ازواج تین چھوڑ گیا
مجھے ملے تو میں اس نوجواں کو قتل کروں
جو بد زباں کے لئے نازنین چھوڑ گیا
رہا جو مفت یہ حجرہ دیا سجا کے اسے
مکاں کشادہ تھا لیکن مکین چھوڑ گیا
پلایا دودھ بھی اور ناز بھی اٹھائے مگر
کمال سانپ تھا جو آستین چھوڑ گیا
پلٹ تو جانا ہے ہم سب کو ایک دن یارو
مگر وہ شخص جو یادیں حسین چھوڑ گیا
میں اپنی تلخ مزاجی پہ خود ہوا حیراں
گیا وہ شخص تو لہجہ متین چھوڑ گیا
ابھی کی حق نے عطا کی ہے کل کی دیکھیں گے
اب ایسی باتوں پہ کاہے یقین چھوڑ گیا
وہ ایک جوگی جو ناگن کی کھوج میں آیا
ہوا کچھ ایسا کہ وہ اپنی بین چھوڑ گیا
صلہ خلوص و عقیدت کا مانگ سکتا تھا
جو ایک شخص زمیں پر جبین چھوڑ گیا
خدا کا خوف نہیں وائرس کا تھا خدشہ
جسے بھی موقع ملا ہے وہ چین چھوڑ گیا
کوئی مزے سے مرا کھیل دیکھتا تھا رشیدؔ
مگر جو دیکھنے والا تھا سین چھوڑ گیا