نہیں کہ بعد ترے دوسرا نہیں آیا

نہیں کہ بعد ترے دوسرا نہیں آیا
جو زیست کو تھا میسر مزہ نہیں آیا


بچھڑ گیا ہے تو ایسے پلٹ کے آیا نہیں
وگرنہ راہ میں طوفان کیا نہیں آیا


بس ایک رات قیامت سی مجھ کو تھی درپیش
پھر اس کے بعد کوئی مرحلہ نہیں آیا


میں اپنی آدھی محبت پہ اب ہوں گریہ کناں
مجھے تو ڈھنگ کوئی میرؔ سا نہیں آیا


جہاں سے آیا تھا تو دل کسی کی آس لیے
اداسیوں میں وہیں لوٹ جا نہیں آیا


ابھی تو آس کی شمعوں کی لو بجھا ہی دے
وہ جس کے آنے کا امکان تھا نہیں آیا


اگرچہ اس سے بڑی مدتوں سے ربط نہیں
دلوں کے بیچ مگر فاصلہ نہیں آیا


وہ اور ہوں گے جنہیں چاند اور تارے ملے
یہاں تو حصے میں ٹوٹا دیا نہیں آیا


رشیدؔ مجھ سے مرے نامہ بر نے ہنس کے کہا
کوئی بھی نامہ ترے نام کا نہیں آیا