Rasheeduzzafar

رشیدالظفر

  • 1947

رشیدالظفر کی غزل

    کیسا ہے میرا عکس نہیں دیکھنا مجھے

    کیسا ہے میرا عکس نہیں دیکھنا مجھے لگتی ہے میری ذات ہی خود آئینہ مجھے اپنا ہی بن سکا نہ کسی کا میں ہو سکا خود آگہی کے زعم نے دھوکا دیا مجھے مل کر میں اس سے آئنہ خانے میں جب گیا حیرت سے تک رہا تھا ہر اک آئنہ مجھے دیر و حرم کی راہ فراموش ہو گئی تیری تلاش نے یہ کہاں گم کیا مجھے اب ...

    مزید پڑھیے

    یہ چھو کر مجھے کون جانے لگا

    یہ چھو کر مجھے کون جانے لگا بدن میں لہو سرسرانے لگا ہوا جب بھی ذکر وفا بزم میں وہ مجھ سے نگاہیں چرانے لگا جو سویا ہے مجھ میں وہ بیدار ہو کوئی ضرب ایسی زمانے لگا میں اب ختم ہوتا ہوں اے زندگی مری خاک کو لے ٹھکانے لگا میں حرف غلط تو نہیں اے ظفرؔ زمانہ مجھے کیوں مٹانے لگا

    مزید پڑھیے

    اپنی قسمت کے ہوئے سارے ستارے پتھر

    اپنی قسمت کے ہوئے سارے ستارے پتھر پھول دامن میں ترے اور ہمارے پتھر ہم بھی عیسیٰ کی طرح تم سے یہی کہتے ہیں جو گناہ گار نہیں ہے وہی مارے پتھر حق نہ مل پائے مشقت کا تو ہوتا ہے یہی ظلم کے سامنے ہوتے ہیں سہارے پتھر معجزہ عشق کا یہ بھی ہے زمانے والو میرے آنگن میں ہوئے پھول تمہارے ...

    مزید پڑھیے

    مری شکست کا کتنا عجیب منظر تھا

    مری شکست کا کتنا عجیب منظر تھا کہ قتل میں ہی ہوا میرے ہاتھ خنجر تھا تمام شہر اندھیروں کی نذر کیسے ہوا ابھی تو کل ہی چراغاں یہاں پہ گھر گھر تھا نہتا ہو کے میں سورج سے کس طرح لڑتا کہ اس کے ہاتھ میں کرنوں کا ایک لشکر تھا مرے وجود سے قائم ہے زندگی تو بھی وگرنہ مجھ میں کوئی وصف تھا نہ ...

    مزید پڑھیے

    رکے ہوئے ہیں جو دریا انہیں روانی دے

    رکے ہوئے ہیں جو دریا انہیں روانی دے تو اپنے ہونے کی مجھ کو کوئی نشانی دے پلٹ کے دیکھ لوں تجھ کو تو سنگ ہو جاؤں مرے یقین کو ایسی کوئی کہانی دے میں شاہ کار ہوں تیرا تو اے خدا اک دن یہ مژدہ آ کے مرے رو بہ رو زبانی دے وہ میرے خوابوں کو آنکھوں سے چھین لیتا ہے اسے نہ شہر تمنا کی حکمرانی ...

    مزید پڑھیے

    کہنے کو یہاں جینے کا سامان بہت ہے

    کہنے کو یہاں جینے کا سامان بہت ہے اک تو جو نہیں زندگی ویران بہت ہے ملتا ہے سر راہ تو کتراتا ہے مجھ سے اب اپنے کیے پہ وہ پشیمان بہت ہے چہرے کے تأثر سے تو لگتا ہے کہ خوش ہے گر روح میں جھانکو تو پریشان بہت ہے پھینک آیا تھا وہ مجھ کو کسی اندھی گپھا میں منزل پہ مجھے پا کے وہ حیران بہت ...

    مزید پڑھیے

    مری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے

    مری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے وہ میرے سائے کو مجھ سے جدا دکھاتا ہے بس ایک پل میں مٹا دیں گی سر پھری موجیں گھروندے ریت کے ساحل پہ کیوں بناتا ہے فضا میں کمرے کی پھیلی ہوئی ہے اک خوشبو یہ کون آ کے کتابیں مری سجاتا ہے یہی ملا ہے صلہ مجھ کو حق پرستی کا کہ وقت نیزے پہ سر کو مرے اٹھاتا ...

    مزید پڑھیے

    ہر لفظ اس کے منہ سے جو نکلا بھلا لگا

    ہر لفظ اس کے منہ سے جو نکلا بھلا لگا ہر وہ لباس اس نے جو پہنا نیا لگا رہتا ہے پتھروں کے نگر میں وہ سنگ دل بے فائدہ ہے در پہ نہ اس کے صدا لگا بے چہرہ بے لباس ہیں بستی کے سارے لوگ کیسی حیا یہاں پہ نہ بند قبا لگا صورت سے اس کی مجھ کو ہے نفرت مگر یہ کیا تصویر سے اسی کی مرا گھر سجا ...

    مزید پڑھیے

    چاند تنہا ہے کہکشاں تنہا

    چاند تنہا ہے کہکشاں تنہا ہجر کی رات آسماں تنہا بھاگتی ریل شور سناٹا رہ گئی بے صدا زباں تنہا رنگ اور نور سے رہے محروم ہم فقیروں کے آستاں تنہا کیسی نفرت کی آگ پھیلی ہے جل رہا ہے مرا مکاں تنہا آندھیاں بجلیاں شجر کمزور بچ نہ پائے گا آشیاں تنہا تھک کے سب سو گئے ہیں محفل میں خود ہی ...

    مزید پڑھیے

    مری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے

    مری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے وہ میرے سائے کو مجھ سے جدا دکھاتا ہے بس ایک پل میں مٹا دیں گی سرپھری موجیں گھروندے ریت کے ساحل پہ کیوں بناتا ہے فضا میں کمرے کی پھیلی ہوئی ہے اک خوشبو یہ کون آ کے کتابیں مری سجاتا ہے یہی ملا ہے صلہ مجھ کو حق پرستی کا کہ وقت نیزے پہ سر کو مرے اٹھاتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2