ہر لفظ اس کے منہ سے جو نکلا بھلا لگا

ہر لفظ اس کے منہ سے جو نکلا بھلا لگا
ہر وہ لباس اس نے جو پہنا نیا لگا


رہتا ہے پتھروں کے نگر میں وہ سنگ دل
بے فائدہ ہے در پہ نہ اس کے صدا لگا


بے چہرہ بے لباس ہیں بستی کے سارے لوگ
کیسی حیا یہاں پہ نہ بند قبا لگا


صورت سے اس کی مجھ کو ہے نفرت مگر یہ کیا
تصویر سے اسی کی مرا گھر سجا لگا


تجھ سے فرار پا نہ سکا میں کبھی ظفرؔ
جس راستے گیا وہ ترے گھر سے جا لگا