مری شکست کا کتنا عجیب منظر تھا

مری شکست کا کتنا عجیب منظر تھا
کہ قتل میں ہی ہوا میرے ہاتھ خنجر تھا


تمام شہر اندھیروں کی نذر کیسے ہوا
ابھی تو کل ہی چراغاں یہاں پہ گھر گھر تھا


نہتا ہو کے میں سورج سے کس طرح لڑتا
کہ اس کے ہاتھ میں کرنوں کا ایک لشکر تھا


مرے وجود سے قائم ہے زندگی تو بھی
وگرنہ مجھ میں کوئی وصف تھا نہ جوہر تھا


میں خود سے مل نہ سکا صرف اس لئے کہ ظفرؔ
مرا وجود مرے راستے کا پتھر تھا