مری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے
مری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے
وہ میرے سائے کو مجھ سے جدا دکھاتا ہے
بس ایک پل میں مٹا دیں گی سر پھری موجیں
گھروندے ریت کے ساحل پہ کیوں بناتا ہے
فضا میں کمرے کی پھیلی ہوئی ہے اک خوشبو
یہ کون آ کے کتابیں مری سجاتا ہے
یہی ملا ہے صلہ مجھ کو حق پرستی کا
کہ وقت نیزے پہ سر کو مرے اٹھاتا ہے
میں اس کے عشق میں ایسے مقام پر ہوں جہاں
اسی کا عکس ہر اک آئینہ دکھاتا ہے