Rasheed Qaisrani

رشید قیصرانی

رشید قیصرانی کی غزل

    کچھ سائے سے ہر لحظہ کسی سمت رواں ہیں

    کچھ سائے سے ہر لحظہ کسی سمت رواں ہیں اس شہر میں ورنہ نہ مکیں ہیں نہ مکاں ہیں ہم خود سے جدا ہوکے تجھے ڈھونڈنے نکلے بکھرے ہیں اب ایسے کہ یہاں ہیں نہ وہاں ہیں جاتی ہیں ترے گھر کو سبھی شہر کی راہیں لگتا ہے کہ سب لوگ تری سمت رواں ہیں اے موجۂ آوارہ کبھی ہم سے بھی ٹکرا اک عمر سے ہم بھی ...

    مزید پڑھیے

    میرے لیے تو حرف دعا ہو گیا وہ شخص

    میرے لیے تو حرف دعا ہو گیا وہ شخص سارے دکھوں کی جیسے دوا ہو گیا وہ شخص میں آسماں پہ تھا تو زمیں کی کشش تھا وہ اترا زمین پر تو ہوا ہو گیا وہ شخص سوچوں بھی اب اسے تو تخیل کے پر جلیں مجھ سے جدا ہوا تو خدا ہو گیا وہ شخص سب اشک پی گیا مرے اندر کا آدمی میں خشک ہو گیا ہوں ہرا ہو گیا وہ ...

    مزید پڑھیے

    پانی کی طرح ریت کے سینے میں اتر جا

    پانی کی طرح ریت کے سینے میں اتر جا یا پھر سے دھواں بن کے خلاؤں میں بکھر جا لہرا کسی چھتنار پہ او میت ہوا کے سوکھے ہوئے پتوں سے دبے پاؤں گزر جا چڑھتی ہوئی اس دھوپ میں سایہ تو ڈھلے گا احسان کوئی ریت کی دیوار پہ دھر جا بجھتی ہوئی اک شب کا تماشائی ہوں میں بھی اے صبح کے تارے مری پلکوں ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے بھی حسیں ہے ترے افکار کا رشتہ

    تجھ سے بھی حسیں ہے ترے افکار کا رشتہ تو مانگ لے مجھ سے مرے اشعار کا رشتہ وہ دھوپ میں نکھرا ہوا بلور سا پیکر چاندی سا چمکتا ہوا دیدار کا رشتہ تنہائی میں پہنچے تو سبھی تھے تہی داماں بازار میں چھوڑ آئے تھے بازار کا رشتہ اک اور گرہ سانس کی ڈوری میں پڑے گی یاد آیا مجھے بھولا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    گاتا رہا ہے دور کوئی ہیر رات بھر

    گاتا رہا ہے دور کوئی ہیر رات بھر میں دیکھتا رہا تری تصویر رات بھر تاروں کے ٹوٹنے کی صدا گونجتی رہی ہوتی رہی ہے رات کی تشہیر رات بھر سورج نے صبح دم مرے پاؤں میں ڈال دی میں توڑتا رہا ہوں جو زنجیر رات بھر میں خامشی میں ڈوب کے کچھ سوچتا رہا کچھ بولتی رہی تری تصویر رات بھر میں چل ...

    مزید پڑھیے

    میں نے کاغذ پہ سجائے ہیں جو تابوت نہ کھول (ردیف .. ا)

    میں نے کاغذ پہ سجائے ہیں جو تابوت نہ کھول جی اٹھے لفظ تو میں خوف سے مر جاؤں گا کون خوشبو سے ہواؤں کا بدن چھینتا ہے تو مرے ساتھ رہے گا میں جدھر جاؤں گا ریگ ساحل سے رہی اپنی شناسائی تو پھر ایک دن گہرے سمندر میں اتر جاؤں گا چاند تاروں کی طرح میں بھی ہوں گردش میں رشیدؔ ہاں اگر تو نے ...

    مزید پڑھیے

    دم بھر کی خوشی باعث آزار بھی ہوگی

    دم بھر کی خوشی باعث آزار بھی ہوگی اس راہ میں سایہ ہے تو دیوار بھی ہوگی صدیوں سے جہاں جس کے تعاقب میں رواں ہے وہ ساعت صد رنگ گرفتار بھی ہوگی رنگوں کی ردا اوڑھ کے اس ریگ رواں پر اتری ہے جو شب وہ شب دیدار بھی ہوگی کہتا ہے مرے کان میں خوشبو کا پیامی منہ بند کلی مائل گفتار بھی ...

    مزید پڑھیے

    اٹھ گئی آج چاند کی ڈولی

    اٹھ گئی آج چاند کی ڈولی کتنی ویراں ہے رات کی جھولی اپنا سایہ سمیٹ کر رکھنا مجھ سے اک بھاگتی کرن بولی اب تو جاگ اے شبوں کی شہزادی تجھ کو سونا تھا عمر بھر سو لی سانس روکو چراغ گل کر دو آج بدلے گی چاندنی چولی میں ہوں ساتھی سلگتے صحرا کا تو ٹھٹھرتی کرن کی ہمجولی ایک دریا سنبھل ...

    مزید پڑھیے

    نام ہمارا دنیا والے لکھیں گے جی داروں میں

    نام ہمارا دنیا والے لکھیں گے جی داروں میں ناچ رہے ہیں اپنی اپنی لاش پہ ہم بازاروں میں ایک پرانی رسم ہے باقی آج تلک درباروں میں چاند سے چہرے چن دیتے ہیں پتھر کی دیواروں میں آج کہاں ہیں شہر میں یارو اونچی گردن والے لوگ عام ہیں اب تو پاؤں بڑے اور سر چھوٹے سرداروں میں پار اترنے ...

    مزید پڑھیے

    آیا افق کی سیج تک آ کر پلٹ گیا

    آیا افق کی سیج تک آ کر پلٹ گیا لیکن عروس شب کا وہ گھونگھٹ الٹ گیا دل میں بسی ہیں کتنی ترے بعد بستیاں دریا تھا خشک ہو کے جزیروں میں بٹ گیا اک شخص لوٹتے ہوئے کل تیرے شہر سے رو رو کے اپنے نقش قدم سے لپٹ گیا میں چل رہا ہوں خول بدن کا اتار کر اب میرے راستے کا یہ پتھر بھی ہٹ گیا پھیلی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4