Rasheed Qaisrani

رشید قیصرانی

رشید قیصرانی کی غزل

    مری جبیں کا مقدر کہیں رقم بھی تو ہو

    مری جبیں کا مقدر کہیں رقم بھی تو ہو میں کس کو سامنے رکھوں کوئی صنم بھی تو ہو کرن کرن ترا پیکر کلی کلی چہرہ یہ لخت لخت بدن اب کہیں بہم بھی تو ہو مرے نصیب میں آخر خلا نوردی کیوں مری زمیں ہے تو اس پر مرا قدم بھی تو ہو ہر ایک شخص نے کتبہ اٹھا رکھا ہے یہاں کسی کے ہاتھ میں آخر کوئی علم ...

    مزید پڑھیے

    گم گشتہ منزلوں کا مجھے پھر نشان دے

    گم گشتہ منزلوں کا مجھے پھر نشان دے میری زمین مجھ کو مرا آسمان دے زخموں کی آبرو کو نہ یوں خاک میں ملا چادر مرے لہو کی مرے سر پہ تان دے یہ دھڑکنوں کا شور قیامت سے کم نہیں اے رب صوت مجھ کو دل بے زبان دے یا مجھ سے چھین لے یہ مذاق بلند و پست یا میرے بال و پر کو کھلا آسمان دے مانگا تھا ...

    مزید پڑھیے

    منہ کس طرح سے موڑ لوں ایسے پیام سے

    منہ کس طرح سے موڑ لوں ایسے پیام سے مجھ کو بلا رہا ہے وہ خود اپنے نام سے سوئے تو سبز پیر کا سایہ سرک گیا ڈیرا جما رکھا تھا بڑے اہتمام سے کیسے مٹا سکے گا مجھے سیل آب و گل نسبت ہے میرے نقش کو نقش دوام سے گو شہر خفتگاں میں قیامت کا رن پڑا تلوار پھر بھی نکلی نہ کوئی نیام سے ہالہ بنا ...

    مزید پڑھیے

    تنہائیوں کا حبس مجھے کاٹتا رہا

    تنہائیوں کا حبس مجھے کاٹتا رہا مجھ تک پہنچ سکی نہ ترے شہر کی ہوا وہ قہقہوں کی سیج پہ بیٹھا ہوا ملا میں جس کے در پہ درد کی بارات لے گیا اک عمر جستجو میں گزاری تو یہ کھلا وہ میرے پاس تھا میں جسے ڈھونڈھتا رہا نکلا ہوں لفظ لفظ سے میں ڈوب ڈوب کر یہ تیرا خط ہے یا کوئی دریا چڑھا ...

    مزید پڑھیے

    دیپ سے دیپ جلاؤ تو کوئی بات بنے

    دیپ سے دیپ جلاؤ تو کوئی بات بنے گیت پر گیت سناؤ تو کوئی بات بنے قطرہ قطرہ نہ پکارو مجھے بہتی ندیوں موج در موج بلاؤ تو کوئی بات بنے رات اندھی ہے گزر جائے گی چپکے چپکے جال کرنوں کا بچھاؤ تو کوئی بات بنے سامنے اپنے ہی خاموش کھڑا ہوں کب سے درمیاں تم بھی جو آؤ تو کوئی بات بنے داستاں ...

    مزید پڑھیے

    میں نے کہیں تھیں آپ سے باتیں بھلی بھلی

    میں نے کہیں تھیں آپ سے باتیں بھلی بھلی رسوا کیا ہے آپ نے مجھ کو گلی گلی میں نے کہا نہیں تھا کہ شعلہ بدن ہیں لوگ اب کیوں دکھا رہے ہو ہتھیلی جلی جلی گلشن میں جو چلی ہے ہوا کتنی تیز ہے بکھری پڑی ہے شاخ سے کٹ کر کلی کلی ایک اور شب کی راہ میں آنکھیں بچھائیے یہ شب بہ صورت شب رفتہ ڈھلی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ سائے سے ہر لحظہ کسی سمت رواں ہیں

    کچھ سائے سے ہر لحظہ کسی سمت رواں ہیں اس شہر میں ورنہ نہ مکیں ہیں نہ مکاں ہیں ہم خود سے جدا ہو کے تجھے ڈھونڈنے نکلے بکھرے ہیں اب ایسے کہ یہاں ہیں نہ وہاں ہیں جاتی ہیں ترے گھر کو سبھی شہر کی سڑکیں لگتا ہے کہ سب لوگ تری سمت رواں ہیں اے موجۂ آوارہ کبھی ہم سے بھی ٹکرا اک عمر سے ہم بھی ...

    مزید پڑھیے

    مانا وہ ایک خواب تھا دھوکا نظر کا تھا

    مانا وہ ایک خواب تھا دھوکا نظر کا تھا اس بے وفا سے ربط مگر عمر بھر کا تھا خوشبو کی چند مست لکیریں ابھار کر لوٹا ادھر ہوا کا وہ جھونکا جدھر کا تھا نکلا وہ بار بار گھٹاؤں کی اوٹ سے اس سے معاملہ تو فقط اک نظر کا تھا تم مسکرا رہے تھے تو شب ساتھ ساتھ تھی آنسو گرے تھے جس پہ وہ دامن سحر ...

    مزید پڑھیے

    یہ کون سا سورج مرے پہلو میں کھڑا ہے

    یہ کون سا سورج مرے پہلو میں کھڑا ہے مجھ سے تو رشیدؔ اب مرا سایہ بھی بڑا ہے تو جس پہ خفا ہے مرے اندر کا یہ انسان اس بات پہ مجھ سے بھی کئی بار لڑا ہے دیکھا جو پلٹ کر تو مرے سائے میں گم تھا وہ شخص جو مجھ سے قد و قامت میں بڑا ہے صدیوں اسے پالا ہے سمندر نے صدف میں پل بھر کے لئے جو مری ...

    مزید پڑھیے

    بات سورج کی کوئی آج بنی ہے کہ نہیں

    بات سورج کی کوئی آج بنی ہے کہ نہیں وہ جو اک رات مسلسل تھی کٹی ہے کہ نہیں تیرے ہاتھوں میں تو آئینہ وہی ہے کہ جو تھا سوچتا ہوں مرا چہرہ بھی وہی ہے کہ نہیں مجھ کو ٹکرا کے بہ ہر حال بکھرنا تھا مگر وہ جو دیوار سی حائل تھی گری ہے کہ نہیں اس کا چہرہ ہے کہ مہتاب وہ آنکھیں ہیں کہ جھیل بات ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4